Book - حدیث 1853

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ حَقِّ الزَّوْجِ عَلَى الْمَرْأَةِ حسن صحیح حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ الْقَاسِمِ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ مُعَاذٌ مِنَ الشَّامِ سَجَدَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَا هَذَا يَا مُعَاذُ؟» قَالَ: أَتَيْتُ الشَّامَ فَوَافَقْتُهُمْ يَسْجُدُونَ لِأَسَاقِفَتِهِمْ وَبَطَارِقَتِهِمْ، فَوَدِدْتُ فِي نَفْسِي أَنْ نَفْعَلَ ذَلِكَ بِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَلَا تَفْعَلُوا، فَإِنِّي لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِغَيْرِ اللَّهِ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا تُؤَدِّي الْمَرْأَةُ حَقَّ رَبِّهَا حَتَّى تُؤَدِّيَ حَقَّ زَوْجِهَا، وَلَوْ سَأَلَهَا نَفْسَهَا وَهِيَ عَلَى قَتَبٍ لَمْ تَمْنَعْهُ»

ترجمہ Book - حدیث 1853

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل باب: بیوی پر خاوند کے حقوق حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب حضرت معاذ ؓ شام سے آئے تو انہوں نے نبی ﷺ کو سجدہ کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: معاذ! یہ کیا؟ انہوں نے کہا: میں شام گیا تو میں نے وہاں کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنے پادریوں اور سرداروں کو سجدہ کرتے ہیں۔ مجھے اپنے دل میں یہ ببات اچھی لگی کہ ہم لوگ آپ کے ساتھ (تعظیم اور احترام کا) یہ طریقہ اختیار کریں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم (یہ کام) نہ کرو۔ اگر میں کسی کو اللہ کے سوا کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے خاوند کو سجدہ کیا کرے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے! عورت اپنے رب کا حق ادا نہیں کر سکتی، جب تک اپنے خاوند کا حق ادا نہیں کرتی اگر وہ اونٹ کے کجاوے پر بیٹھی ہوئی ہو اور خاوند اس سے خواہش کا اظہار کرے تو اسے انکار نہیں کرنا چاہیے۔
تشریح : 1۔عبادت کےطور پر مخلوق میں سے کسی کو سجدہ کرنا کفر ہے ۔ احترام کے طور پر سجدہ کرنا سابقہ شریعتوں میں جائز تھا ، ہماری شریعت میں یہ بھی حرام ہے ۔ سابقہ شریعت میں کوئی کام جائز ہونے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس میں کوئی حرج نہیں مثلا : حضرت آدم کے زمانے میں سگی بہن سے نکاح جائز تھا ، اب حرام ہے ۔ پہلے چار سے زیادہ عورتوں کوبیک وقت نکاح میں رکھنا یا دو بہنوں سے بیک وقت نکاح کر لینا جائز تھا اب نہیں ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم بزرگوں کو سجدہ نہیں کرتے بلکہ ان کے قدم چومتے ہیں ، یا کسی کو راضی کرنے کے لیے اس کے پاؤں پڑ جاتے ہیں ، اس کے قدموں میں گر جاتے ہیں یہ بھی سجدہ ہے ۔ نام بدل لینے سے حرام کا حلال نہیں ہو جاتا۔ یہود و نصاریٰ کے رسم و رواج اور آداب اختیار کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ ان کے ایسے اعمال کا تعلق بالعموم ان کے غلط عقائد سے ہوتا ہے اگرچہ ہمارے لیے وہ تعلق اس قدر واضح نہ ہو ۔ دوسری غیر مسلم اقوام مثلا : ہندو ، سکھ ،پارسی اور بدھ وغیرہ کے رسم و رواج کا بھی یہی حکم ہے ۔ خاوند کا حق بہت زیادہ ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بیوی کے حقوق فراموش کردیے جائیں ، جیسے والدین کا حق بہت زیادہ ہے لیکن اولاد کے حقوق بھی پیش نظر رہنے چاہییں ۔ نکاح کا ایک بڑا مقصد عصمت و عفت کی حفاظت ہے ، اس لیے عورت کو مرد کی جنسی خواہش پوری کرنے میں پس و پیش نہیں کرنا چاہیے ۔ مرد کو بھی چاہیے کہ جب محسوس ہو کہ عورت مقاربت کی خواہش رکھتی ہے تو اس کا یہ حق ادا کرے ۔حدیث میں عورت کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ عام طور پر تکلف کا اظہار عورت ہی کی طرف سے ہوتا ہے ، اس کے برعکس صورت شاذ و نادر ہے ۔ عورت کو چاہیے کہ مرد کا احترام ملحوظ رکھے ۔ 1۔عبادت کےطور پر مخلوق میں سے کسی کو سجدہ کرنا کفر ہے ۔ احترام کے طور پر سجدہ کرنا سابقہ شریعتوں میں جائز تھا ، ہماری شریعت میں یہ بھی حرام ہے ۔ سابقہ شریعت میں کوئی کام جائز ہونے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس میں کوئی حرج نہیں مثلا : حضرت آدم کے زمانے میں سگی بہن سے نکاح جائز تھا ، اب حرام ہے ۔ پہلے چار سے زیادہ عورتوں کوبیک وقت نکاح میں رکھنا یا دو بہنوں سے بیک وقت نکاح کر لینا جائز تھا اب نہیں ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم بزرگوں کو سجدہ نہیں کرتے بلکہ ان کے قدم چومتے ہیں ، یا کسی کو راضی کرنے کے لیے اس کے پاؤں پڑ جاتے ہیں ، اس کے قدموں میں گر جاتے ہیں یہ بھی سجدہ ہے ۔ نام بدل لینے سے حرام کا حلال نہیں ہو جاتا۔ یہود و نصاریٰ کے رسم و رواج اور آداب اختیار کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ ان کے ایسے اعمال کا تعلق بالعموم ان کے غلط عقائد سے ہوتا ہے اگرچہ ہمارے لیے وہ تعلق اس قدر واضح نہ ہو ۔ دوسری غیر مسلم اقوام مثلا : ہندو ، سکھ ،پارسی اور بدھ وغیرہ کے رسم و رواج کا بھی یہی حکم ہے ۔ خاوند کا حق بہت زیادہ ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بیوی کے حقوق فراموش کردیے جائیں ، جیسے والدین کا حق بہت زیادہ ہے لیکن اولاد کے حقوق بھی پیش نظر رہنے چاہییں ۔ نکاح کا ایک بڑا مقصد عصمت و عفت کی حفاظت ہے ، اس لیے عورت کو مرد کی جنسی خواہش پوری کرنے میں پس و پیش نہیں کرنا چاہیے ۔ مرد کو بھی چاہیے کہ جب محسوس ہو کہ عورت مقاربت کی خواہش رکھتی ہے تو اس کا یہ حق ادا کرے ۔حدیث میں عورت کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ عام طور پر تکلف کا اظہار عورت ہی کی طرف سے ہوتا ہے ، اس کے برعکس صورت شاذ و نادر ہے ۔ عورت کو چاہیے کہ مرد کا احترام ملحوظ رکھے ۔