Book - حدیث 1852

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ حَقِّ الزَّوْجِ عَلَى الْمَرْأَةِ ضعیف حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَوْ أَمَرْتُ أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا، وَلَوْ أَنَّ رَجُلًا أَمَرَ امْرَأَتَهُ أَنْ تَنْقُلَ مِنْ جَبَلٍ أَحْمَرَ إِلَى جَبَلٍ أَسْوَدَ، وَمِنْ جَبَلٍ أَسْوَدَ إِلَى جَبَلٍ أَحْمَرَ، لَكَانَ نَوْلُهَا أَنْ تَفْعَلَ»

ترجمہ Book - حدیث 1852

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل باب: بیوی پر خاوند کے حقوق ام المومنین حضرت عائشہ ؓا ے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ کسی انسان کو سجدہ کرے تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ اگر کوئی مرد عورت کو حکم دے کہ سرخ پہاڑ سے (پتھر اٹھا کر) سیاہ پہاڑ پر لے جائے، اور سیاہ پہاڑ سے سرخ پہاڑ پر لے جائے تو عورت کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ یہ کام کرے۔
تشریح : مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سندا ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اس روایت کے پہلے جملے ( لو امرت احدا ان .....تسجد لزوجھا ) ’’ اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ کسی انسان کو سجدہ کرے تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے ۔‘‘ کو دیگر شواہد کی بناء پر صحیح قرار دیا ہے ۔ مذکورہ جملہ جامع الترمذی (1159) میں بھی مروی ہے ۔ وہاں پر ہمارے شیخ موصوف نے اس جملے کو سندا حسن قرار دیا ہے ، نیز یہی جملہ اگلی روایت میں بھی مذکور ہے اسے بھی انہوں نے سندا حسن قرار دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت جو کہ سندا ضعیف ہے اس میں سے پہلا جملہ قابل عمل اور قابل حجت ہے ۔ تفصیل کے لیے دیکھیئے : ( الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الامام احمد : 32؍145۔149 ، و 41؍19 ، وارواء الغلیل : 7؍54۔58، حدیث : 1998) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سندا ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اس روایت کے پہلے جملے ( لو امرت احدا ان .....تسجد لزوجھا ) ’’ اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ کسی انسان کو سجدہ کرے تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے ۔‘‘ کو دیگر شواہد کی بناء پر صحیح قرار دیا ہے ۔ مذکورہ جملہ جامع الترمذی (1159) میں بھی مروی ہے ۔ وہاں پر ہمارے شیخ موصوف نے اس جملے کو سندا حسن قرار دیا ہے ، نیز یہی جملہ اگلی روایت میں بھی مذکور ہے اسے بھی انہوں نے سندا حسن قرار دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت جو کہ سندا ضعیف ہے اس میں سے پہلا جملہ قابل عمل اور قابل حجت ہے ۔ تفصیل کے لیے دیکھیئے : ( الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الامام احمد : 32؍145۔149 ، و 41؍19 ، وارواء الغلیل : 7؍54۔58، حدیث : 1998)