Book - حدیث 1851

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ حَقِّ الْمَرْأَةِ عَلَى الزَّوْجِ حسن حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ الْبَارِقِيِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، أَنَّهُ شَهِدَ حَجَّةَ الْوَدَاعِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَذَكَّرَ وَوَعَظَ، ثُمَّ قَالَ: «اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا، فَإِنَّهُنَّ عِنْدَكُمْ عَوَانٍ، لَيْسَ تَمْلِكُونَ مِنْهُنَّ شَيْئًا غَيْرَ ذَلِكَ، إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ، فَإِنْ فَعَلْنَ فَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ، وَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ، فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا، إِنَّ لَكُمْ مِنْ نِسَائِكُمْ حَقًّا، وَلِنِسَائِكُمْ عَلَيْكُمْ حَقًّا، فَأَمَّا حَقُّكُمْ عَلَى نِسَائِكُمْ، فَلَا يُوَطِّئْنَّ فُرُشَكُمْ مَنْ تَكْرَهُونَ، وَلَا يَأْذَنَّ فِي بُيُوتِكُمْ لِمَنْ تَكْرَهُونَ، أَلَا وَحَقُّهُنَّ عَلَيْكُمْ أَنْ تُحْسِنُوا إِلَيْهِنَّ فِي كِسْوَتِهِنَّ وَطَعَامِهِنَّ»

ترجمہ Book - حدیث 1851

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل باب: خاوند پر بیوی کے حقوق حضرت عمرو بن احوص ؓ سے روایت ہے کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ موجود تھے۔ (اس دوران میں) نبی ﷺ نے اللہ کی حمدو ثنا جئ، اور وعظ و نصیحت فرمائی۔ (اس میں آپ نے کئی باتیں ارشاد فرمائیں) پھر فرمایا: عورتوں کے بارے میں خٰر کی وصیت قبول کرو کیونکہ وہ تمہارے پاس قیدی ہیں۔ تمہیں ان پر اس کے سوا کوئی اختیار نہیں۔ الا یہ کہ وہ واضح بے شرمی کا کوئی کام کریں۔ اگر وہ ایسی حرکت کریں تو ان سے بستروں میں الگ ہو جاؤ، اور انہیں مارو لیکن سخت پٹائی نہ ہو۔ (اس تنبیہ کے نتیجے میں) اگر وہ تمہاری اطاعت کرنے لگ جائیں تو ان پر (سختی کرنے کی) راہ تلاش نہ کرو یقینا تمہاری عورتوں پر تمہارا حق ہے، اور تمہاری عورتوں کا تم پر حق ہے۔ تمہاری عورتوں پر تمہارا حق تو یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر اسے نہ بٹھائیں جس(کے گھر میں آنے) کو تم ناپسند کرتے ہو، اور تمہارے گھر میں اس فرد کو آنے کی اجازت نہ دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو۔ سنو! تم پر عورتوں کا یہ حق ہے کہ ان کے لباس اور خوراک کے بارے میں ان سے اچھا سلوک کرو۔
تشریح : 1۔وصیت تاکیدی نصیحت کو کہتے ہیں جس پر عمل کرنا بہت ضروری سمجھا جاتا ہے ۔ ’’ وصیت قبول کرو ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں ۔ بہت سے صحابہ کرام جو حجۃ الوداع میں حاضر تھے ان کے لیے ممکن ہے کہ نبی ﷺ سے ان کی وہ آخری ملاقات ہو کیونکہ اس سے تین ماہ بعد رسول اللہ ﷺ اس دار فانی سے کوچ فرما گئے ۔ ان کے لیے یہ خطبہ واقعی آخری نصیحت ( وصیت ) بن گیا ۔ خطاب اگرچہ حجۃ الوداع میں حاضر ہونے والے صحابہ کرام سے فرمایا گیا تھا تاہم یہ حکم قیامت تک آنے والے تمام مومنوں کے لیے ہے مرد کو چاہیے کہ بیوی کے اخلاق و کردار کی نگرانی کرے تاہم بلاوجہ شکوک و شبہات میں مبتلا رہنا درست نہیں جب تکہ کوئی واضح مشکوک صورت سامنے نہ آئے ۔ واضح بے حیائی سے مراد ایسی حرکات ہیں جن پر روک ٹوک نہ کرنے سے بدکاری تک نوبت پہنچ سکتی ہے ۔ زنا کا ارتکاب ہو جانے کی صورت میں دوسرے احکام ہیں جو قرآن و حدیث میں اپنے مقام پر مذکور ہیں ۔ بستروں میں الگ ہونے سے مراد ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے جنسی تعلقات منقطع کر لینا ہے ۔ بعض علماء نے اس کی یہ صورت بیان فرمائی ہے کہ ایک ہی بستر پر ہوتے ہوئے عورت کی طرف پیٹھ کر کے لیٹ جائے تاکہ اس کا جذباتی ہیجان اسے معافی مانگنے اور اپنی اصلاح کرنے پر مجبور کر دے ۔ جب محسوس ہو کہ عورت اپنی غلطی پر پشیمان ہے اور اصلاح پر آمادہ ہے تو اس سے معمول کے تعلقات قائم کر لینے چاہییں اور بار بار گزشتہ غلطیوں کا طعنہ نہیں دینا چاہیے ۔ بعض اوقات صورتحال اس قدر خراب ہو جاتی ہے کہ جسمانی سزا ناگزیر ہو جاتی ہے لیکن یہ اصلاح کی کوشش کی آخری درجہ ہے جہاں تک ممکن ہو معاملات کو اس مرحلے پر نہیں پہنچنے دینا چاہیے ۔ اگر جسمانی سزا ضروری محسوس ہو تو اس میں بھی نرمی کا پہلو مدنظر ہونا چاہیے یعنی صرف اس حد تک سختی کی جائے یا سزا دی جائے جو تنبیہ کے لیے ضروری ہو اس سے زیادہ نہیں کیونکہ مقصود اصلاح ہے غصہ نکالنا یا بدلہ لینا نہیں ۔ مہمانوں کی تکریم ضروری ہے لیکن اگر کوئی ایسا شخص آتا ہے جسے خاوند اچھا نہیں سمجھتا تو عورت کو چاہیے کہ خاوند کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے اسے اجازت دینے سےمعذرت کر لے ، یا کہہ دے کہ مرد گھر میں نہیں ، پھر آ جائیے گا ۔ ناپسندیدہ شخص کو بستر پر نہ بٹھانے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غیر مردوں سے ناجائز تعلقات استوار کرنے کی راہ ہموار نہ کی جائے ۔ ان سے نرم لہجے میں ہنس ہنس کر بات کرنے کے بجائے سنجیدگی سے مختصر بات کر کے فارغ کر دیا جائے ۔ امام خطابی فرماتے ہیں : ’’ اس کا مطلب یہ ہے کہ اجنبی مردوں کو گپ شپ کے لیے اپنے پاس گھر میں آنے کی اجازت نہ دیں ، جیسے عرب میں یہ رواج تھا اور اسے عیب نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد اس سے منع کر دیا گیا۔ ‘‘ ( حاشیہ سنن ابن ماجہ از محمد فواد عبدالباقی ) ہمارے ہاں دیہات میں ، جہاں پردے کا اہتمام نہیں کیا جاتا اب بھی یہ صورت حال موجود ہے جو شرعی طور پر ممنوع ہے ۔ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ عورت اپنے محرم رشتہ داروں کو بھی خاوند کی اجازت کے بغیر گھر میں نہ آنے دے لیکن زیادہ صحیح یہ معلوم ہوتا ہے کہ خاوند کو ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ عورت کے محرم مردوں پر پابندی لگائے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے رضاعی چچا کو گھر میں آنے کی اجازت نہیں دی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ وہ تمہارا چچا ہے ، اسے آنے کی اجازت دو ۔‘‘ ( سنن ابن ماجہ ، حدیث : 1948) لباس اور خوراک کے بارے میں اچھا سلوک یہ ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق اچھا لباس اور مناسب خوراک مہیا کرے لیکن ایسے لباس سے منع کرنا چاہیے جو شریعت کی تعلیمات کے مطابق نہ ہو ۔ 1۔وصیت تاکیدی نصیحت کو کہتے ہیں جس پر عمل کرنا بہت ضروری سمجھا جاتا ہے ۔ ’’ وصیت قبول کرو ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں ۔ بہت سے صحابہ کرام جو حجۃ الوداع میں حاضر تھے ان کے لیے ممکن ہے کہ نبی ﷺ سے ان کی وہ آخری ملاقات ہو کیونکہ اس سے تین ماہ بعد رسول اللہ ﷺ اس دار فانی سے کوچ فرما گئے ۔ ان کے لیے یہ خطبہ واقعی آخری نصیحت ( وصیت ) بن گیا ۔ خطاب اگرچہ حجۃ الوداع میں حاضر ہونے والے صحابہ کرام سے فرمایا گیا تھا تاہم یہ حکم قیامت تک آنے والے تمام مومنوں کے لیے ہے مرد کو چاہیے کہ بیوی کے اخلاق و کردار کی نگرانی کرے تاہم بلاوجہ شکوک و شبہات میں مبتلا رہنا درست نہیں جب تکہ کوئی واضح مشکوک صورت سامنے نہ آئے ۔ واضح بے حیائی سے مراد ایسی حرکات ہیں جن پر روک ٹوک نہ کرنے سے بدکاری تک نوبت پہنچ سکتی ہے ۔ زنا کا ارتکاب ہو جانے کی صورت میں دوسرے احکام ہیں جو قرآن و حدیث میں اپنے مقام پر مذکور ہیں ۔ بستروں میں الگ ہونے سے مراد ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے جنسی تعلقات منقطع کر لینا ہے ۔ بعض علماء نے اس کی یہ صورت بیان فرمائی ہے کہ ایک ہی بستر پر ہوتے ہوئے عورت کی طرف پیٹھ کر کے لیٹ جائے تاکہ اس کا جذباتی ہیجان اسے معافی مانگنے اور اپنی اصلاح کرنے پر مجبور کر دے ۔ جب محسوس ہو کہ عورت اپنی غلطی پر پشیمان ہے اور اصلاح پر آمادہ ہے تو اس سے معمول کے تعلقات قائم کر لینے چاہییں اور بار بار گزشتہ غلطیوں کا طعنہ نہیں دینا چاہیے ۔ بعض اوقات صورتحال اس قدر خراب ہو جاتی ہے کہ جسمانی سزا ناگزیر ہو جاتی ہے لیکن یہ اصلاح کی کوشش کی آخری درجہ ہے جہاں تک ممکن ہو معاملات کو اس مرحلے پر نہیں پہنچنے دینا چاہیے ۔ اگر جسمانی سزا ضروری محسوس ہو تو اس میں بھی نرمی کا پہلو مدنظر ہونا چاہیے یعنی صرف اس حد تک سختی کی جائے یا سزا دی جائے جو تنبیہ کے لیے ضروری ہو اس سے زیادہ نہیں کیونکہ مقصود اصلاح ہے غصہ نکالنا یا بدلہ لینا نہیں ۔ مہمانوں کی تکریم ضروری ہے لیکن اگر کوئی ایسا شخص آتا ہے جسے خاوند اچھا نہیں سمجھتا تو عورت کو چاہیے کہ خاوند کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے اسے اجازت دینے سےمعذرت کر لے ، یا کہہ دے کہ مرد گھر میں نہیں ، پھر آ جائیے گا ۔ ناپسندیدہ شخص کو بستر پر نہ بٹھانے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غیر مردوں سے ناجائز تعلقات استوار کرنے کی راہ ہموار نہ کی جائے ۔ ان سے نرم لہجے میں ہنس ہنس کر بات کرنے کے بجائے سنجیدگی سے مختصر بات کر کے فارغ کر دیا جائے ۔ امام خطابی فرماتے ہیں : ’’ اس کا مطلب یہ ہے کہ اجنبی مردوں کو گپ شپ کے لیے اپنے پاس گھر میں آنے کی اجازت نہ دیں ، جیسے عرب میں یہ رواج تھا اور اسے عیب نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد اس سے منع کر دیا گیا۔ ‘‘ ( حاشیہ سنن ابن ماجہ از محمد فواد عبدالباقی ) ہمارے ہاں دیہات میں ، جہاں پردے کا اہتمام نہیں کیا جاتا اب بھی یہ صورت حال موجود ہے جو شرعی طور پر ممنوع ہے ۔ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ عورت اپنے محرم رشتہ داروں کو بھی خاوند کی اجازت کے بغیر گھر میں نہ آنے دے لیکن زیادہ صحیح یہ معلوم ہوتا ہے کہ خاوند کو ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ عورت کے محرم مردوں پر پابندی لگائے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے رضاعی چچا کو گھر میں آنے کی اجازت نہیں دی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ وہ تمہارا چچا ہے ، اسے آنے کی اجازت دو ۔‘‘ ( سنن ابن ماجہ ، حدیث : 1948) لباس اور خوراک کے بارے میں اچھا سلوک یہ ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق اچھا لباس اور مناسب خوراک مہیا کرے لیکن ایسے لباس سے منع کرنا چاہیے جو شریعت کی تعلیمات کے مطابق نہ ہو ۔