Book - حدیث 1850

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ حَقِّ الْمَرْأَةِ عَلَى الزَّوْجِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي قَزْعَةَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ مُعَاوِيَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا حَقُّ الْمَرْأَةِ عَلَى الزَّوْجِ؟ قَالَ: «أَنْ يُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمَ، وَأَنْ يَكْسُوَهَا إِذَا اكْتَسَى، وَلَا يَضْرِبِ الْوَجْهَ، وَلَا يُقَبِّحْ، وَلَا يَهْجُرْ إِلَّا فِي الْبَيْتِ»

ترجمہ Book - حدیث 1850

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل باب: خاوند پر بیوی کے حقوق حضرت حکیم بن معاویہ اپنے والد حضرت معاویہ (ابن حیدہ ؓ) سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا: ایک آدمی نے نبی ﷺ سے سوال کیا: خاوند پر عورت کا کیا حق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جب کھانا کھائے تو اسے بھی کھلائے، جب کپڑا پہنے تو اسے بھی پہنائے، چہرے پر نہ مارے، اسے برا بھلا نہ کہے اور گھر ہی میں (اس سے) علیحدگی اختیار کیے رکھے۔
تشریح : 1۔اسلام نے معاشرے کو صحیح بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے ہر فرد کے حقوق و فرائض کا تعین کر دیا ہے ۔ ان کو پیش نظر رکھ کر معاشرے میں امن قائم کیا جاسکتا ہے ۔ جس طرح مردوں کے حقوق ہیں اسی طرح عورتوں کے بھی حقوق ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُ‌وفِ) ( البقرۃ 2:228) ’’ اور دستور کے مطابق عورتوں کے لیے مردوں پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے لیے عورتوں پر ہیں ۔‘‘ گھر میں امن و سکون قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں ۔ عورت کی بنیادی ضروریات یعنی خوراک ، لباس اور رہائش وغیرہ مہیا کرنا مرد کا فرض ہے ۔ مرد کو حق حاصل ہے کہ عورت کو غلطی پر مناسب تنبیہ کرے ۔ اگر معمولی تنبیہ کا اثر نہ ہو تو معمولی سی جسمانی سزا بھی دی جا سکتی ہے لیکن چہرے پر مارنا منع ہے ۔ [لا یقبح] کا ایک مفہوم یہ ہے کہ ڈانٹتے وقت نامناسب الفاظ استعمال نہ کرے ، جیسے عربوں میں رواج تھا کہ وہ کہتے [قبح الله وجهک] ’’ اللہ تیرے چہرے کو قبیح کردے ۔‘‘ یا [قبحک الله] ’’ اللہ تجھے بدصورت کر دے۔‘‘ اس طرح کی گالی اور بددعا سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ چہرے پر نہ مارے ، زور سے مارنے سے چہرے پر نشان پڑ جائے گا اور چہرہ بدصورت ہو جائے گا اس لیے فرمایا کہ اسے بدصورت نہ بنا دے ۔ تنبیہ کے لیے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے وقتی طور پر بول چال بند کرنا جائز ہے لیکن بیوی کو گھر سے نکال دینا یا خود گھر سے کئی دن کے لیے باہر چلے جانا مناسب نہیں ۔ گھر میں دونوں کی موجودگی سے ناراضی جلد دور ہو جانے کی امید ہوتی ہے ۔ 1۔اسلام نے معاشرے کو صحیح بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے ہر فرد کے حقوق و فرائض کا تعین کر دیا ہے ۔ ان کو پیش نظر رکھ کر معاشرے میں امن قائم کیا جاسکتا ہے ۔ جس طرح مردوں کے حقوق ہیں اسی طرح عورتوں کے بھی حقوق ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُ‌وفِ) ( البقرۃ 2:228) ’’ اور دستور کے مطابق عورتوں کے لیے مردوں پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے لیے عورتوں پر ہیں ۔‘‘ گھر میں امن و سکون قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں ۔ عورت کی بنیادی ضروریات یعنی خوراک ، لباس اور رہائش وغیرہ مہیا کرنا مرد کا فرض ہے ۔ مرد کو حق حاصل ہے کہ عورت کو غلطی پر مناسب تنبیہ کرے ۔ اگر معمولی تنبیہ کا اثر نہ ہو تو معمولی سی جسمانی سزا بھی دی جا سکتی ہے لیکن چہرے پر مارنا منع ہے ۔ [لا یقبح] کا ایک مفہوم یہ ہے کہ ڈانٹتے وقت نامناسب الفاظ استعمال نہ کرے ، جیسے عربوں میں رواج تھا کہ وہ کہتے [قبح الله وجهک] ’’ اللہ تیرے چہرے کو قبیح کردے ۔‘‘ یا [قبحک الله] ’’ اللہ تجھے بدصورت کر دے۔‘‘ اس طرح کی گالی اور بددعا سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ چہرے پر نہ مارے ، زور سے مارنے سے چہرے پر نشان پڑ جائے گا اور چہرہ بدصورت ہو جائے گا اس لیے فرمایا کہ اسے بدصورت نہ بنا دے ۔ تنبیہ کے لیے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے وقتی طور پر بول چال بند کرنا جائز ہے لیکن بیوی کو گھر سے نکال دینا یا خود گھر سے کئی دن کے لیے باہر چلے جانا مناسب نہیں ۔ گھر میں دونوں کی موجودگی سے ناراضی جلد دور ہو جانے کی امید ہوتی ہے ۔