Book - حدیث 1845

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ النِّكَاحِ صحیح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ بِمِنًى، فَخَلَا بِهِ عُثْمَانُ فَجَلَسْتُ قَرِيبًا مِنْهُ، فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ: هَلْ لَكَ أَنْ أُزَوِّجَكَ جَارِيَةً بِكْرًا تُذَكِّرُكَ مِنْ نَفْسِكَ بَعْضَ مَا قَدْ مَضَى؟ فَلَمَّا رَأَى عَبْدُ اللَّهِ أَنَّهُ لَيْسَ لَهُ حَاجَةٌ سِوَى هَذَا، أَشَارَ إِلَيَّ بِيَدِهِ، فَجِئْتُ وَهُوَ يَقُولُ: لَئِنْ قُلْتَ ذَلِكَ، لَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ، فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ»

ترجمہ Book - حدیث 1845

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل باب: نکاح کی فضیلت حضرت علقمہ بن قیس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں منیٰ میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے ساتھ تھا کہ حضرت عثمان ؓ انہیں الگ لے گئے، میں پاس بیٹھا تھا۔ حضرت عثمان ؓ نے ان سے فرمایا: کیا آپ پسند فرماتے ہیں کہ میں ایک کنواری لڑکی سے آپ کی شادی کروا دوں جس سے آپ کو گزرے وقت کی کچھ باتیں یاد آ جائیں؟ جب حضرت عبداللہ ؓ کو محسوس ہوا کہ حضرت عثمان ؓ کو اس کے سوا اور کوئی کام نہیں (جس کے لیے وہ انہیں الگ لے گئے تھے) تو مجھے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ میں حاضر ہوا تو وہ فر رہے تھے: اگر آپ نے یہ بات کہی ہے تو (اچھی بات ہی کی ہے کیونکہ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے جوانوں کی جماعت! تم میں سے جو شخص نکاح کی طاقت رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ شادی کر لے، اس کی وجہ سے نظر نیچی رہتی ہے اور جسم (بدکاری سے) محفوظ رہتا ہے۔ اور جسے (نکاح) کی طاقت نہ ہو تو اسے چاہیے کہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ، خواہش کو کچل دیتا ہے۔
تشریح : 1۔گزرے وقتوں کی یاد سے مراد یہ ہے کہ جس طرح آپ پہلے ازدواجی زندگی گزار رہے تھے اور اطمینان و مسرت کا وقت گزر رہا تھا ، اب پھر آپ کو شادی کی ضرورت ہے تاکہ آپ کو دوبارہ وہی خوشی اور وہی اطمینان و سکون حاصل ہو جس کا حصول شادی کے بغیر ممکن نہیں ۔ شادی شدہ زندگی میں میاں بیوی کی عمر میں تفاوت کو بہت زیادہ اہمیت حاصل نہیں ۔ اگر ذہنی ہم آہنگی موجود ہو اور مرد اس قابل ہو کہ اپنی بیوی کی فطری ضروریات خوش اسلوبی سے پوری کر سکے تو ادھیڑ عمر مرد کم عمر عورت سے نکاح کر سکتا ہے ۔ تین افراد میں سے دو افراد کا تیسرے کو الگ کر کے بات چیت کرنا منع ہے لیکن اگر تیسرے آدمی کی دل شکنی کا اندیشہ نہ ہو تو بعض حالات میں اس کی گنجائش ہے ، ویسے بھی مذکورہ بالا واقعہ میں دونوں کے الگ ہو جانے کے باوجود حضرت علقمہ  اتنے دور نہیں تھے کہ ان کی بات چیت نہ سن سکیں ۔ حضرت عبداللہ کو اس وقت نکاح کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اس لیے انہوں نے یہ نہیں فرمایا کہ لڑکی والوں سے رابطہ قائم کیا جائے ، البتہ حضرت عثمان کی خیر خواہی کا شکر ادا کرنے کے لیے فرمادیا کہ نکاح واقعی ایک اہم اور مفید چیز ہے ۔ نکاح کی طاقت رکھنے کا مطلب جسمانی طور پر نکاح کے قابل ہونا اور مالی طور پر بیوی کے لازمی اخراجات پورے کرنے کے قابل ہونا ہے ۔ موجودہ معاشرے میں رائج رسم و رواج پر کیے جانے والے بے جا اخراجات کی طاقت مراد نہیں ۔ معاشرے سے ان فضول رسموں کو ختم کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے ۔ نکاح کا سب سے بڑا فائدہ گناہ کی زندگی سے حفاظت اور جنسی خواہشات کی جائز ذریعے سے تکمیل ہے ۔ نکاح کرتے وقت یہ مقصد پیش نظر رکھنا چاہیے ، دوسرے فوائد خود ہی حاصل ہو جائیں گے ۔ فحاشی سے بچاؤ اسلامی معاشرے کی ایک اہم خوبی ہے ، اس کے حصول کے لیے ہر جائز ذریعہ اختیار کرنا چاہیے ، اور فحاشی کا ہر راستہ بند کرنا چاہیے ۔ اسلامی شریعت کی یہ خوبی ہے کہ یہ انسان کی فطرت کے مطالبات کی نفی نہیں کرتی بلکہ ان کے حصول کے جائز ذرائع مہیا کرتی ہے ۔ روزہ رکھ کر انسان نامناسب خیالات اور جذبات کو کنٹرول کرسکتا ہے ۔ اس وجہ سے فطری خواہش بھی بے لگام نہیں ہوتی ، اس لیے اگر کسی نوجوان لڑکے یا لڑکی کی شادی میں کسی وجہ سے تاخیر ہو جائے تو اسے چاہیے کہ نفلی روزے کثرت سے رکھے اور جذبات میں ہیجان پیدا کرنے والے ماحول ، اس قسم کے لٹریچر کے مطالعے ، جذبات انگیز نغمات سننے اور فلمیں وغیرہ دیکھنے سے پرہیز کرے تاکہ جوانی کا جوش ، گناہ میں ملوث نہ کرسکے۔ 1۔گزرے وقتوں کی یاد سے مراد یہ ہے کہ جس طرح آپ پہلے ازدواجی زندگی گزار رہے تھے اور اطمینان و مسرت کا وقت گزر رہا تھا ، اب پھر آپ کو شادی کی ضرورت ہے تاکہ آپ کو دوبارہ وہی خوشی اور وہی اطمینان و سکون حاصل ہو جس کا حصول شادی کے بغیر ممکن نہیں ۔ شادی شدہ زندگی میں میاں بیوی کی عمر میں تفاوت کو بہت زیادہ اہمیت حاصل نہیں ۔ اگر ذہنی ہم آہنگی موجود ہو اور مرد اس قابل ہو کہ اپنی بیوی کی فطری ضروریات خوش اسلوبی سے پوری کر سکے تو ادھیڑ عمر مرد کم عمر عورت سے نکاح کر سکتا ہے ۔ تین افراد میں سے دو افراد کا تیسرے کو الگ کر کے بات چیت کرنا منع ہے لیکن اگر تیسرے آدمی کی دل شکنی کا اندیشہ نہ ہو تو بعض حالات میں اس کی گنجائش ہے ، ویسے بھی مذکورہ بالا واقعہ میں دونوں کے الگ ہو جانے کے باوجود حضرت علقمہ  اتنے دور نہیں تھے کہ ان کی بات چیت نہ سن سکیں ۔ حضرت عبداللہ کو اس وقت نکاح کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اس لیے انہوں نے یہ نہیں فرمایا کہ لڑکی والوں سے رابطہ قائم کیا جائے ، البتہ حضرت عثمان کی خیر خواہی کا شکر ادا کرنے کے لیے فرمادیا کہ نکاح واقعی ایک اہم اور مفید چیز ہے ۔ نکاح کی طاقت رکھنے کا مطلب جسمانی طور پر نکاح کے قابل ہونا اور مالی طور پر بیوی کے لازمی اخراجات پورے کرنے کے قابل ہونا ہے ۔ موجودہ معاشرے میں رائج رسم و رواج پر کیے جانے والے بے جا اخراجات کی طاقت مراد نہیں ۔ معاشرے سے ان فضول رسموں کو ختم کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے ۔ نکاح کا سب سے بڑا فائدہ گناہ کی زندگی سے حفاظت اور جنسی خواہشات کی جائز ذریعے سے تکمیل ہے ۔ نکاح کرتے وقت یہ مقصد پیش نظر رکھنا چاہیے ، دوسرے فوائد خود ہی حاصل ہو جائیں گے ۔ فحاشی سے بچاؤ اسلامی معاشرے کی ایک اہم خوبی ہے ، اس کے حصول کے لیے ہر جائز ذریعہ اختیار کرنا چاہیے ، اور فحاشی کا ہر راستہ بند کرنا چاہیے ۔ اسلامی شریعت کی یہ خوبی ہے کہ یہ انسان کی فطرت کے مطالبات کی نفی نہیں کرتی بلکہ ان کے حصول کے جائز ذرائع مہیا کرتی ہے ۔ روزہ رکھ کر انسان نامناسب خیالات اور جذبات کو کنٹرول کرسکتا ہے ۔ اس وجہ سے فطری خواہش بھی بے لگام نہیں ہوتی ، اس لیے اگر کسی نوجوان لڑکے یا لڑکی کی شادی میں کسی وجہ سے تاخیر ہو جائے تو اسے چاہیے کہ نفلی روزے کثرت سے رکھے اور جذبات میں ہیجان پیدا کرنے والے ماحول ، اس قسم کے لٹریچر کے مطالعے ، جذبات انگیز نغمات سننے اور فلمیں وغیرہ دیکھنے سے پرہیز کرے تاکہ جوانی کا جوش ، گناہ میں ملوث نہ کرسکے۔