Book - حدیث 1843

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ فَضْلِ الصَّدَقَةِ صحیح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا سَيُكَلِّمُهُ رَبُّهُ، لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تُرْجُمَانٌ، فَيَنْظُرُ أَمَامَهُ فَتَسْتَقْبِلُهُ النَّارُ، وَيَنْظُرُ عَنْ أَيْمَنَ مِنْهُ فَلَا يَرَى إِلَّا شَيْئًا قَدَّمَهُ، وَيَنْظُرُ عَنْ أَشْأَمَ مِنْهُ فَلَا يَرَى إِلَّا شَيْئًا قَدَّمَهُ، فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَتَّقِيَ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ فَلْيَفْعَلْ»

ترجمہ Book - حدیث 1843

کتاب: زکاۃ کے احکام و مسائل باب: صدقہ کی فضیلت حضرت عدی بن حاتم طائی ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کلام فرمائے گا جب کہ بندے اور رب کے درمیان کوئی ترج ن نہیں ہو گا۔ بندہ سامنے نظر اٹھائے گا تو اسے سامنے آگ نظر آئے گی، دائیں طرف دیکھے گا تو اپنے بھیجے ہوئے اعمال ہی نظر آئیں گے، بائیں طرف دیکھے گا تو (ادھر بھی) اپنے بھیجے ہوئے اعمال ہی نظر آئیں گے، لہذا جو شخص آگ سے بچنے کے لیے آدھی کھجور ہی دے سکتا ہے (زیادہ کی طاقت نہیں)، وہ یہی کر لے۔
تشریح : 1۔قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر شخص سے خود حساب لے گا ۔ کلام کرنا اللہ کی صفت ہے جس کی اصل حقیقت وکیفیت سے ہم واقف نہیں ، تاہم اسے مخلوق کی صفت کلام سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی ۔ اللہ کی اس قسم کی صفات کی تاویل سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ ہر شخص کو اپنے اچھے برے اعمال کا حساب دینا ہوگا ، لہذا یہ کہہ کر مطمئن ہو جانا غلط ہے کہ اگر میں فلاں گناہ کرتا ہوں تو اور بہت سے لوگ بھی یہی گناہ کرتے ہیں ۔ اگر میں فلاں نیکی کی پروا نہیں کرتا تو اور بھی بہت سے لوگ اس نیکی سے محروم ہیں ۔ اس قسم کی باتیں شیطانی وساوس ہیں جن کے ذریعے سے وہ مسلمانوں کو نیکی کے کاموں سے اور توبہ سے محروم رکھتا ہے ۔ چھوٹی چھوٹی نیکیوں کو معمولی سمجھ کر چھوڑ نہیں دینا چاہیے معلوم نہیں کسی بڑی نیکی کا موقع ملے گا یا نہیں اور اگر کوئی بڑا کام کر لیا تو اس میں کس قدر نقص ہو گا؟ اللہ جانے وہ قبول ہونے کے قابل بھی ہو گا یا نہیں ۔ کوئی شخص نیکی کا چھوٹا سا کام کرے تو اس پر تنقید نہیں کرنی چاہیے ، شاید اس کے لیے وہی نجات کا باعث بن جائے ۔ 1۔قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر شخص سے خود حساب لے گا ۔ کلام کرنا اللہ کی صفت ہے جس کی اصل حقیقت وکیفیت سے ہم واقف نہیں ، تاہم اسے مخلوق کی صفت کلام سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی ۔ اللہ کی اس قسم کی صفات کی تاویل سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ ہر شخص کو اپنے اچھے برے اعمال کا حساب دینا ہوگا ، لہذا یہ کہہ کر مطمئن ہو جانا غلط ہے کہ اگر میں فلاں گناہ کرتا ہوں تو اور بہت سے لوگ بھی یہی گناہ کرتے ہیں ۔ اگر میں فلاں نیکی کی پروا نہیں کرتا تو اور بھی بہت سے لوگ اس نیکی سے محروم ہیں ۔ اس قسم کی باتیں شیطانی وساوس ہیں جن کے ذریعے سے وہ مسلمانوں کو نیکی کے کاموں سے اور توبہ سے محروم رکھتا ہے ۔ چھوٹی چھوٹی نیکیوں کو معمولی سمجھ کر چھوڑ نہیں دینا چاہیے معلوم نہیں کسی بڑی نیکی کا موقع ملے گا یا نہیں اور اگر کوئی بڑا کام کر لیا تو اس میں کس قدر نقص ہو گا؟ اللہ جانے وہ قبول ہونے کے قابل بھی ہو گا یا نہیں ۔ کوئی شخص نیکی کا چھوٹا سا کام کرے تو اس پر تنقید نہیں کرنی چاہیے ، شاید اس کے لیے وہی نجات کا باعث بن جائے ۔