كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ مَنْ تَحِلُّ لَهُ الصَّدَقَةُ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ إِلَّا لِخَمْسَةٍ: لِعَامِلٍ عَلَيْهَا، أَوْ لِغَازٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوْ لِغَنِيٍّ اشْتَرَاهَا بِمَالِهِ، أَوْ فَقِيرٍ تُصُدِّقَ عَلَيْهِ فَأَهْدَاهَا لِغَنِيٍّ، أَوْ غَارِمٍ
کتاب: زکاۃ کے احکام و مسائل
باب: کسے زکاۃ لینا جائز ہے؟
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پانچ افراد کے علاوہ کسی امیر آدمی کے لیے صدقہ (اور زکاۃ) کھانا حلال نہیں۔ (1) صدقہ وصول کرنے والا (سرکاری ملازم)، (2) اللہ کی راہ میں جنگ کرنے والا (مجاہد)، (3) وہ دولت مند جو صدقے کی چیز اپنے مال کے بدلے خرید لیتا ہے، (4) یا (یہ صورت کہ) کسی فقیر کو صدقہ دیا گیا اور اس نے وہ کسی غنی کو تحفہ کے طور پر دے دیا، (5) دیوالیہ (مقروض۔ )
تشریح :
1۔جو مال زکاۃ یا صدقے کے طور پر دیا جائے ادا کرنے والے کے قبضے سے نکل کر اس کی حیثیت تبدیل ہو جاتی ہے ۔
اسلامی حکومت کی طرف سے جن افراد کو زکاۃ وصول اور تقسیم کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے ، ان کی محنت کا حق ادا کیا جانا چاہیے
دینی کام کرنے والے کو مناسب تنخواہ یا وظیفہ دیا جانا چاہیے ، یہ اسلامی معاشرے کا فرض ہے جو اسلامی حکومت قائم ہونے کی صورت میں بیت المال کے ذریعے سے ادا کیا جاتا ہے ورنہ عام مسلمانوں کو خود یہ فرض ادا کرنا چاہیے ۔ اسلامی سلطنت کا دفاع بھی زکاۃ و صدقات کا ایک اہم مصرف ہے ۔ اس میں فوجیوں کی تنخواہیں ، ان کے لیے ضروری اسلحہ کی فراہمی اور ان کی ٹریننگ کے اخراجات بھی شامل ہیں ۔ جس مستحق کو زکاۃ کے طور پر کوئی جانور ( اونٹ ، بکری وغیرہ ) یا سونے چاندی کا کوئی زیور دیا جائے وہ اسے فروخت کر سکتا ہے ۔ خریدنے والے کے لیے وہ زکاۃ کا مال شمار نہیں ہوگا ، البتہ صدقہ دینے والا صدقہ لینے والے سے وہ چیز نہیں خرید سکتا جو اس نے اسے صدقے کے طور پر دی ہے ۔( صحیح البخاری ، الزکاۃ ، باب ھل یشتری صدقتہ ؟ ولا باس ان یشتری صدقۃ غیرہ .....حدیث : 1489) ۔ ایک غریب آدمی کسی خوشحال آدمی کو کوئی تحفہ دے تو یہ تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں کہ اسے یہ چیز صدقہ کے طور پر ملی ہے یا دوسرے طریقے سے ۔ تحفہ وصول کرنے والے کے لیے اس کی حیثیت صدقے کی نہیں ، اس لیے اسے وصول کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ دیوالیہ ( غارم) سے مراد وہ شخص بھی ہو سکتا ہے جس پر اتنا زیادہ قرض ہو جائے کہ وہ اسے ادا کرنے کے قابل نہ رہے اور اس کی ملکیت بھی اتنی نہ ہو کہ فروخت کر کے قرضہ ادا کیا جا سکے ۔ اور وہ شخص بھی مراد ہو سکتا ہے جس نے قرض کے سلسلے میں کسی کی ضمانت دی اور مقروض نے مقررہ وقت پر ادائیگی سے انکار کر دیا یا فرار ہو گیا ، اس طرح ضامن کو وہ رقم ادا کرنی پڑ گئی ۔ اسی طرح حادثاتی طور پر کوئی شخص مفلس ہوجائے ، مثلا: کسی نے باغ کا پھل خریدا تھا ، طوفان سے پھل ضائع ہو گیا اور رقم اس کے ذمے رہ گئی ، ایسے شخص کا نقصان بھی زکاۃ و صدقات سے پورا کیا جاسکتا ہے ۔ اس طرح اور بھی صورتیں ہو سکتی ہیں ، وہ سب ’’ غارم ‘‘ میں شامل ہوں گی ۔
1۔جو مال زکاۃ یا صدقے کے طور پر دیا جائے ادا کرنے والے کے قبضے سے نکل کر اس کی حیثیت تبدیل ہو جاتی ہے ۔
اسلامی حکومت کی طرف سے جن افراد کو زکاۃ وصول اور تقسیم کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے ، ان کی محنت کا حق ادا کیا جانا چاہیے
دینی کام کرنے والے کو مناسب تنخواہ یا وظیفہ دیا جانا چاہیے ، یہ اسلامی معاشرے کا فرض ہے جو اسلامی حکومت قائم ہونے کی صورت میں بیت المال کے ذریعے سے ادا کیا جاتا ہے ورنہ عام مسلمانوں کو خود یہ فرض ادا کرنا چاہیے ۔ اسلامی سلطنت کا دفاع بھی زکاۃ و صدقات کا ایک اہم مصرف ہے ۔ اس میں فوجیوں کی تنخواہیں ، ان کے لیے ضروری اسلحہ کی فراہمی اور ان کی ٹریننگ کے اخراجات بھی شامل ہیں ۔ جس مستحق کو زکاۃ کے طور پر کوئی جانور ( اونٹ ، بکری وغیرہ ) یا سونے چاندی کا کوئی زیور دیا جائے وہ اسے فروخت کر سکتا ہے ۔ خریدنے والے کے لیے وہ زکاۃ کا مال شمار نہیں ہوگا ، البتہ صدقہ دینے والا صدقہ لینے والے سے وہ چیز نہیں خرید سکتا جو اس نے اسے صدقے کے طور پر دی ہے ۔( صحیح البخاری ، الزکاۃ ، باب ھل یشتری صدقتہ ؟ ولا باس ان یشتری صدقۃ غیرہ .....حدیث : 1489) ۔ ایک غریب آدمی کسی خوشحال آدمی کو کوئی تحفہ دے تو یہ تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں کہ اسے یہ چیز صدقہ کے طور پر ملی ہے یا دوسرے طریقے سے ۔ تحفہ وصول کرنے والے کے لیے اس کی حیثیت صدقے کی نہیں ، اس لیے اسے وصول کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ دیوالیہ ( غارم) سے مراد وہ شخص بھی ہو سکتا ہے جس پر اتنا زیادہ قرض ہو جائے کہ وہ اسے ادا کرنے کے قابل نہ رہے اور اس کی ملکیت بھی اتنی نہ ہو کہ فروخت کر کے قرضہ ادا کیا جا سکے ۔ اور وہ شخص بھی مراد ہو سکتا ہے جس نے قرض کے سلسلے میں کسی کی ضمانت دی اور مقروض نے مقررہ وقت پر ادائیگی سے انکار کر دیا یا فرار ہو گیا ، اس طرح ضامن کو وہ رقم ادا کرنی پڑ گئی ۔ اسی طرح حادثاتی طور پر کوئی شخص مفلس ہوجائے ، مثلا: کسی نے باغ کا پھل خریدا تھا ، طوفان سے پھل ضائع ہو گیا اور رقم اس کے ذمے رہ گئی ، ایسے شخص کا نقصان بھی زکاۃ و صدقات سے پورا کیا جاسکتا ہے ۔ اس طرح اور بھی صورتیں ہو سکتی ہیں ، وہ سب ’’ غارم ‘‘ میں شامل ہوں گی ۔