Book - حدیث 1839

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ مَنْ سَأَلَ عَنْ ظَهْرِ غِنًى صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ، وَلَا لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ»

ترجمہ Book - حدیث 1839

کتاب: زکاۃ کے احکام و مسائل باب: مال دار ہوتے ہوئے ( بلا ضرورت) سوال کرنا حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: صدقہ نہ مال دار کے لیے حلال ہے، اور نہ طاقت ور تندرست آدمی کے لیے۔
تشریح : 1۔مال دار سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس اتنا کچھ موجود ہو کہ اس کا گزر ہو سکے ۔ تعیثات کے حصول کے لیے اگر گنجائش نہیں تو اسے مفلس یا زکاۃ کا مستحق قرار نہیں دیا جاسکتا ہے ۔ طاقت ور سے مراد وہ شخص ہے جو حلال طریقے سے محنت مزدوری یا کسی قسم کی ملازمت وغیرہ کے ذریعے سے روزی کما سکتا ہے ۔ ایسا شخص اگر بے کار بیٹھا رہے اور کام کرنے کی کوشش نہ کرے تو یہ اس کی غلطی ہے ۔ تندرست سے مراد وہ شخص ہے جس کو جسمانی طور پر اس قسم کی معذوری لاحق نہیں کہ وہ روزی کمانے کے قابل نہ رہے ۔ 1۔مال دار سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس اتنا کچھ موجود ہو کہ اس کا گزر ہو سکے ۔ تعیثات کے حصول کے لیے اگر گنجائش نہیں تو اسے مفلس یا زکاۃ کا مستحق قرار نہیں دیا جاسکتا ہے ۔ طاقت ور سے مراد وہ شخص ہے جو حلال طریقے سے محنت مزدوری یا کسی قسم کی ملازمت وغیرہ کے ذریعے سے روزی کما سکتا ہے ۔ ایسا شخص اگر بے کار بیٹھا رہے اور کام کرنے کی کوشش نہ کرے تو یہ اس کی غلطی ہے ۔ تندرست سے مراد وہ شخص ہے جس کو جسمانی طور پر اس قسم کی معذوری لاحق نہیں کہ وہ روزی کمانے کے قابل نہ رہے ۔