كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فِيمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِيَّةُ صحیح حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ الْمَازِنِيِّ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَهُوَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، إِذْ عَرَضَ لَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا ابْنَ عُمَرَ، كَيْفَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَذْكُرُ فِي النَّجْوَى؟ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: يُدْنَى الْمُؤْمِنُ مِنْ رَبِّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، حَتَّى يَضَعَ عَلَيْهِ كَنَفَهُ، ثُمَّ يُقَرِّرُهُ بِذُنُوبِهِ، فَيَقُولُ: هَلْ تَعْرِفُ؟ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، أَعْرِفُ، حَتَّى إِذَا بَلَغَ مِنْهُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَبْلُغَ، قَالَ: إِنِّي سَتَرْتُهَا عَلَيْكَ فِي الدُّنْيَا، وَأَنَا أَغْفِرُهَا لَكَ الْيَوْمَ، قَالَ: ثُمَّ يُعْطَى صَحِيفَةَ حَسَنَاتِهِ أَوْ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ، قَالَ: وَأَمَّا الْكَافِرُ أَوِ الْمُنَافِقُ، فَيُنَادَى عَلَى رُءُوسِ الْأَشْهَادِ قَالَ خَالِدٌ: فِي «الْأَشْهَادِ» شَيْءٌ مِنَ انْقِطَاعٍ، {هَؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى رَبِّهِمْ، أَلَا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ} [هود: 18]
کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت
باب: فرقہ جہمیہ نے جس چیز کا انکار کیا
سیدنا صفوان بن محرز مازنی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دفعہ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے، ہم بھی ان کے ساتھ تھے، اچانک ایک آدمی سامنے آگیا، اس نے کہا: اے ابن عمر! آپ نے رسول ﷺ کو سرگوشی کے بارے میں کیا فرماتے سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا: میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے سنا، آپ فرماتے تھے:‘‘ قیامت کے دن بندے کو رب کے قریب کیا جائے گا، حتٰی کہ اللہ تعالیٰ اس پر پردہ ڈال دے گا، اور اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا۔ فرمائے گا: کیا تو( فلاں گناہ کو) جانتاہے؟ بندہ کہے گا: یارب! پہچانتا ہوں( میں نے یہ گناہ کیا ہے۔) حتٰی کہ جب اقرار سے اس کی وہ حالت ہو جائے گی، جو اللہ چاہے گا( جب بندے کو یقین ہو جائے گا کہ اب ضرور سخت سزا ملے گی) اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے دنیا میں تیرے ان گناہوں پر پردہ ڈال دیا تھا اور آج انہیں تیرے لئے معاف کرتا ہوں، پھر اسے نیکیوں والی کتاب دائیں ہاتھ میں دے دی جائے گی، اور کافر یا منافق کو سب حاضرین( اہل محشر) کے سامنے پکار کر کہا جائے گا:﴿ هٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِيْنَ كَذَبُوْا عَلٰي رَبِّهِمْ ۚ اَلَا لَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَي الظّٰلِــمِيْنَ ﴾‘‘یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب جھوٹ باندھا۔ سنو! ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔’’
تشریح :
(1) اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کا ثبوت ملتا ہے۔ اہل سنت کا اس مسئلہ میں یہ موقف ہے کہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے، جس سے چاہتا ہے، جو چاہتا ہے، کلام فرماتا ہے اور مکاطب اس کلام کو سنتا ہے اور یہ امر حروف و اصوات کے بغیر ممکن نہیں جیسا کہ آگے وضاحت آ رہی ہے۔ جن آیات و احادیث میں اللہ کے کلام کرنے کا ذکر آیا ہے، علمائے حق ان کی تاویل نہیں کرتے، بلکہ اسے حقیقت پر محمول کرتے ہیں، البتہ اللہ کی صفت کلام کو مخلوق کے کلام سے تشبیہ نہیں دیتے۔ (2) اللہ کا کلام اس انداز سے بھی ہو سکتا ہے کہ صرف ایک فرد سنے، جیسے اس حدیث میں ہے، اسی لیے اسے سرگوشی فرمایا گیا ہے یا جس طرح موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے (وقربنه نجيا) (مریم:56) ہم نے اسے سرگوشی کے لیے اپنا اقرب بخشا۔ اور اس انداز سے بھی ہو سکتا ہے کہ زیادہ افراد سنیں، جیسے جنت میں اللہ تعالیٰ تمام مومنین سے فرمائے گا کہ میں آئندہ کبھی تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔(3) اس میں اللہ کی عظیم رحمت کا تذکرہ ہے، جس کی وجہ سے مومن اللہ سے مغفرت کی امید رکھتے ہیں، نیز مجرموں کی رسوائی بھی مذکور ہے جس کی وجہ سے مومن اللہ سے ڈرتے ہیں کیونکہ ایمان میں امید اور خوف دونوں شامل ہیں۔
(1) اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کا ثبوت ملتا ہے۔ اہل سنت کا اس مسئلہ میں یہ موقف ہے کہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے، جس سے چاہتا ہے، جو چاہتا ہے، کلام فرماتا ہے اور مکاطب اس کلام کو سنتا ہے اور یہ امر حروف و اصوات کے بغیر ممکن نہیں جیسا کہ آگے وضاحت آ رہی ہے۔ جن آیات و احادیث میں اللہ کے کلام کرنے کا ذکر آیا ہے، علمائے حق ان کی تاویل نہیں کرتے، بلکہ اسے حقیقت پر محمول کرتے ہیں، البتہ اللہ کی صفت کلام کو مخلوق کے کلام سے تشبیہ نہیں دیتے۔ (2) اللہ کا کلام اس انداز سے بھی ہو سکتا ہے کہ صرف ایک فرد سنے، جیسے اس حدیث میں ہے، اسی لیے اسے سرگوشی فرمایا گیا ہے یا جس طرح موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے (وقربنه نجيا) (مریم:56) ہم نے اسے سرگوشی کے لیے اپنا اقرب بخشا۔ اور اس انداز سے بھی ہو سکتا ہے کہ زیادہ افراد سنیں، جیسے جنت میں اللہ تعالیٰ تمام مومنین سے فرمائے گا کہ میں آئندہ کبھی تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔(3) اس میں اللہ کی عظیم رحمت کا تذکرہ ہے، جس کی وجہ سے مومن اللہ سے مغفرت کی امید رکھتے ہیں، نیز مجرموں کی رسوائی بھی مذکور ہے جس کی وجہ سے مومن اللہ سے ڈرتے ہیں کیونکہ ایمان میں امید اور خوف دونوں شامل ہیں۔