كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ صَدَقَةِ الْفِطْرِ حسن حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَشِيرِ بْنِ ذَكْوَانَ، وَأَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ، قَالَا: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو يَزِيدَ الْخَوْلَانِيُّ، عَنْ سَيَّارِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الصَّدَفِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ، وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ، فَمَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ فَهِيَ زَكَاةٌ مَقْبُولَةٌ، وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ فَهِيَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ»
کتاب: زکاۃ کے احکام و مسائل
باب: صدقہ فطر کا بیان
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے روزے کو لغو اور نا مناسب باتوں (کے گناہ) سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کے لیے صدقہ فطر مقرر فرمایا۔ جس نے نماز (عید) سے پہلے یہ ادا کر دیا، اس کا یہ قبول شدہ صدقہ ہے اور جس نے نماز کے بعد ادا کیاتو وہ تو ایک عام صدقہ ہے (صدقہ فطر نہیں۔)
تشریح :
1۔صدقہ فطر کی مشروعیت میں یہ حکمت ہے کہ غریب اور مسکین بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو جائیں ۔
مسلمان اپنی خوشی میں دوسرے مسلمانوں کو بھی شریک کرتا ہے ۔
صدقہ فطر کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ روزے کے آداب میں ہو جانے والی کمی اور کوتاہی معاف فرما دیتا ہے ۔
نماز عید سے پہلے صدقہ فطر کی ادائیگی کا آخری وقت ہے ۔ عید کے دن سے پہلے ادا کر دینا بھی درست ہے ۔ حضرت نافع نے فرمایا : صحابہ کرام عید سے ایک دو دن پہلے ہی صدقہ فطر ادا کر دیا کرتے تھے ۔‘‘ ( صحیح البخاری ، الزکاۃ ، باب صدقۃ الفطر علی الحر وال مملوک ، حدیث : 1511)
اگر صدقہ فطر نماز عید سے پہلے ادا نہ کیا جا سکے تو بعد میں ادا کر دینا چاہیے اس سے اگر صدقہ فطر کا خاص ثواب تو نہیں ملے گا تاہم عام صدقے کا ثواب مل جائے گا اور اس طرح اس محرومی کی کسی حد تک تلافی ہو جائے گی ۔
1۔صدقہ فطر کی مشروعیت میں یہ حکمت ہے کہ غریب اور مسکین بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو جائیں ۔
مسلمان اپنی خوشی میں دوسرے مسلمانوں کو بھی شریک کرتا ہے ۔
صدقہ فطر کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ روزے کے آداب میں ہو جانے والی کمی اور کوتاہی معاف فرما دیتا ہے ۔
نماز عید سے پہلے صدقہ فطر کی ادائیگی کا آخری وقت ہے ۔ عید کے دن سے پہلے ادا کر دینا بھی درست ہے ۔ حضرت نافع نے فرمایا : صحابہ کرام عید سے ایک دو دن پہلے ہی صدقہ فطر ادا کر دیا کرتے تھے ۔‘‘ ( صحیح البخاری ، الزکاۃ ، باب صدقۃ الفطر علی الحر وال مملوک ، حدیث : 1511)
اگر صدقہ فطر نماز عید سے پہلے ادا نہ کیا جا سکے تو بعد میں ادا کر دینا چاہیے اس سے اگر صدقہ فطر کا خاص ثواب تو نہیں ملے گا تاہم عام صدقے کا ثواب مل جائے گا اور اس طرح اس محرومی کی کسی حد تک تلافی ہو جائے گی ۔