كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فِيمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِيَّةُ ضعیف حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ: أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ وَكِيعِ بْنِ حُدُسٍ، عَنْ عَمِّهِ أَبِي رَزِينٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيْنَ كَانَ رَبُّنَا قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ خَلْقَهُ؟، قَالَ: «كَانَ فِي عَمَاءٍ، مَا تَحْتَهُ هَوَاءٌ، وَمَا فَوْقَهُ هَوَاءٌ، وَمَا ثَمَّ خَلْقٌ، عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ»
کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت
باب: فرقہ جہمیہ نے جس چیز کا انکار کیا
سیدنا ابو زرین ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے ہمارا رب کہاں تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:‘‘ وہ بادل میں تھا، اس( بادل ) کے نیچے بھی ہوا نہ تھی ، اور اس کے اوپر بھی ہوا نہ تھی، اور نہ وہاں کوئی اور مخلوق تھی۔ اس کا عرش پانی پر تھا۔’’
تشریح :
(1) (ما تحته هواء وما فوقه هواء) ترجمہ بعض علماء نے یوں کیا ہے جس کے نیچے بھی ہوا تھی، اور اوپر بھی۔ اس صورت میں ما موصولہ ہو گا۔ لیکن محمد فواد الباقی رحمۃ اللہ علیہ نے سنن ابن ماجہ کے حاشیے میں لکھا ہے کہ ما نافیہ ہے، موصولہ نہیں۔ ہم نے ترجمہ اس قول کے مطابق کیا گیا ہے۔ (2) كان في عماء (اللہ تعالیٰ عماء میں تھا) اس کے ایک معنی تو بادل ہیں۔ ایک معنی یہ کیے گئے ہیں کہ اس سے مراد ایسی چیز ہے جو انسانی فہم سے ماوراء ہو، یعنی اس سوال کا جواب عقل سے ماوراء ہے۔ بہرحال ان توضیحات و تاویلات کی ضرورت تب پیش آتی ہے جب حدیث قابل استدلال ہو۔ جیسا کہ ہمارے محقق نے اس حدیث کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ لیکن اس حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ سے جیسا کہ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے،اس میں تاویل کی ضرورت نہیں۔
(1) (ما تحته هواء وما فوقه هواء) ترجمہ بعض علماء نے یوں کیا ہے جس کے نیچے بھی ہوا تھی، اور اوپر بھی۔ اس صورت میں ما موصولہ ہو گا۔ لیکن محمد فواد الباقی رحمۃ اللہ علیہ نے سنن ابن ماجہ کے حاشیے میں لکھا ہے کہ ما نافیہ ہے، موصولہ نہیں۔ ہم نے ترجمہ اس قول کے مطابق کیا گیا ہے۔ (2) كان في عماء (اللہ تعالیٰ عماء میں تھا) اس کے ایک معنی تو بادل ہیں۔ ایک معنی یہ کیے گئے ہیں کہ اس سے مراد ایسی چیز ہے جو انسانی فہم سے ماوراء ہو، یعنی اس سوال کا جواب عقل سے ماوراء ہے۔ بہرحال ان توضیحات و تاویلات کی ضرورت تب پیش آتی ہے جب حدیث قابل استدلال ہو۔ جیسا کہ ہمارے محقق نے اس حدیث کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ لیکن اس حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ سے جیسا کہ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے،اس میں تاویل کی ضرورت نہیں۔