كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ صَدَقَةِ الْغَنَمِ صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «فِي أَرْبَعِينَ شَاةً شَاةٌ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً، فَفِيهَا شَاتَانِ إِلَى مِائَتَيْنِ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَةً، فَفِيهَا ثَلَاثُ شِيَاهٍ إِلَى ثَلَاثِمِائَةٍ، فَإِنْ زَادَتْ فَفِي كُلِّ مِائَةٍ شَاةٌ، لَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ، وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ، وَكُلُّ خَلِيطَيْنِ يَتَرَاجَعَانِ بِالسَّوِيَّةِ، وَلَيْسَ لِلْمُصَدِّقِ هَرِمَةٌ، وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ، وَلَا تَيْسٌ، إِلَّا أَنْ يَشَاءَ الْمُصَّدِّقُ»
کتاب: زکاۃ کے احکام و مسائل
باب: بھیڑ بکریوں کی زکاۃ
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: چالیس بکریوں میں ایک بکری (زکاۃ) ہے، ایک سو بیس تک (یہی حکم ہے۔) اگر ایک زیادہ ہو جائے تو دو بکریاں ہیں، دو سو تک۔ اگر ( دو سو سے) ایک بکری زیادہ ہو تو تین سو تک تین بکریاں ہیں۔اگر اس سے زیادہ ہوں تو ہر سو میں ایک بکری (زکاۃ) ہے۔ زکاۃ کے ڈر سے اکٹھے (ریوڑ) کو الگ الگ نہ کیا جائے، اور الگ الگ (ریوڑوں) کو اکٹھا نہ کیا جائے۔ اور ریوڑ میں شریک دو افراد برابری کی بنیادی پر ایک دوسرے سے حساب کتاب کر لیں۔ اور زکاۃ وصول کرنے والے (عامل) کو بوڑھا یا عیب دار جانور نہ دیا جائے اور نہ سانڈ دیا جائے، الا یہ کہ زکاۃ دینے والا چاہے۔
تشریح :
1۔اگر دو شخص اپنی اپنی بکریاں ملا کر ایک ریوڑ بنا لیں تو انہیں خلیط کہا جاتا ہے ۔ یہ اشتراک اس صورت میں معتبر ہے جب دونوں ریوڑوں کا چرواہا ، باڑا ، پانی کا انتظام اور افزائش نسل کے لیے سانڈ مشترک ہو ۔ ( موطا امام مالک ، الزکاۃ ، باب صدقۃ الخلطاء : 1؍242)
اگر اشتراک اس قسم کا ہو کہ ہر فریق کی اپنی اپنی بکریاں ہیں تو اسے خلطہ ( اختلاط) کہتے ہیں ۔ اگر ہر بکری مشترک ہو مثلا دو آدمیوں نے پیسے ملا کر چند بکریاں خرید لیں تو یہ خلطہ نہیں شرکہ ( اشتراک) ہے ۔
برابری کی بنیاد پر حساب کتاب کرنے کی مثال یہ ہے کہ چالیس چالیس بکریوں والے دو افراد نے اختلاط کرکے اپنا ایک ریوڑ بنالیا۔ زکاۃ وصول کرنے والے نے جس شخص کی بکریوں میں سے زکاۃ کی بکری وصول کی ، دوسرا آدمی اسے آدھی بکری کی قیمت ادا کرے گا ۔ اگر بکریوں میں کمی بیشی ہو تو اسی نسبت سے حساب کر کے ایک دوسرے کو ادائیگی کردیں گے۔
مصدق زکاۃ دینے والا اگر اپنی خوشی سے عمدہ جانور یا سانڈ دینا چاہے تو اس سے وصول کر لیا جائے لیکن زکاۃ وصول کرنے والا خود طلب نہ کرے ۔ اگر اس لفظ کو مصدق ( زکاۃ وصول کرنے والا ) پڑھا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ اگر عامل کسی فائدے کے پیش نظر عیب دار یا بوڑھا جانور لینا پسند کرے تو زکاۃ ادا کرنے والا گناہ گار نہیں ، مثلا: ممکن ہے کہ ایک جانور لنگڑا ہو لیکن اس میں گوشت زیادہ ہو یا وہ عمدہ نسل کا ہونے کی وجہ سے دوسرے جانوروں سے بہتر سمجھا جاتا ہو اس طرح بیت المال کو یا جس مستحق کے حصے میں وہ آئے اسے زیادہ فائدہ حاصل ہو جائے۔
1۔اگر دو شخص اپنی اپنی بکریاں ملا کر ایک ریوڑ بنا لیں تو انہیں خلیط کہا جاتا ہے ۔ یہ اشتراک اس صورت میں معتبر ہے جب دونوں ریوڑوں کا چرواہا ، باڑا ، پانی کا انتظام اور افزائش نسل کے لیے سانڈ مشترک ہو ۔ ( موطا امام مالک ، الزکاۃ ، باب صدقۃ الخلطاء : 1؍242)
اگر اشتراک اس قسم کا ہو کہ ہر فریق کی اپنی اپنی بکریاں ہیں تو اسے خلطہ ( اختلاط) کہتے ہیں ۔ اگر ہر بکری مشترک ہو مثلا دو آدمیوں نے پیسے ملا کر چند بکریاں خرید لیں تو یہ خلطہ نہیں شرکہ ( اشتراک) ہے ۔
برابری کی بنیاد پر حساب کتاب کرنے کی مثال یہ ہے کہ چالیس چالیس بکریوں والے دو افراد نے اختلاط کرکے اپنا ایک ریوڑ بنالیا۔ زکاۃ وصول کرنے والے نے جس شخص کی بکریوں میں سے زکاۃ کی بکری وصول کی ، دوسرا آدمی اسے آدھی بکری کی قیمت ادا کرے گا ۔ اگر بکریوں میں کمی بیشی ہو تو اسی نسبت سے حساب کر کے ایک دوسرے کو ادائیگی کردیں گے۔
مصدق زکاۃ دینے والا اگر اپنی خوشی سے عمدہ جانور یا سانڈ دینا چاہے تو اس سے وصول کر لیا جائے لیکن زکاۃ وصول کرنے والا خود طلب نہ کرے ۔ اگر اس لفظ کو مصدق ( زکاۃ وصول کرنے والا ) پڑھا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ اگر عامل کسی فائدے کے پیش نظر عیب دار یا بوڑھا جانور لینا پسند کرے تو زکاۃ ادا کرنے والا گناہ گار نہیں ، مثلا: ممکن ہے کہ ایک جانور لنگڑا ہو لیکن اس میں گوشت زیادہ ہو یا وہ عمدہ نسل کا ہونے کی وجہ سے دوسرے جانوروں سے بہتر سمجھا جاتا ہو اس طرح بیت المال کو یا جس مستحق کے حصے میں وہ آئے اسے زیادہ فائدہ حاصل ہو جائے۔