Book - حدیث 1805

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ صَدَقَةِ الْغَنَمِ صحیح حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَقْرَأَنِي سَالِمٌ كِتَابًا كَتَبَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّدَقَاتِ، قَبْلَ أَنْ يَتَوَفَّاهُ اللَّهُ، فَوَجَدْتُ فِيهِ: «فِي أَرْبَعِينَ شَاةً شَاةٌ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً، فَفِيهَا شَاتَانِ إِلَى مِائَتَيْنِ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَةً، فَفِيهَا ثَلَاثُ شِيَاهٍ إِلَى ثَلَاثِمِائَةٍ، فَإِذَا كَثُرَتْ، فَفِي كُلِّ مِائَةٍ شَاةٌ» ، وَوَجَدْتُ فِيهِ: «لَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ، وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ» ، وَوَجَدْتُ فِيهِ: «لَا يُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ تَيْسٌ، وَلَا هَرِمَةٌ، وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ»

ترجمہ Book - حدیث 1805

کتاب: زکاۃ کے احکام و مسائل باب: بھیڑ بکریوں کی زکاۃ امام ابن شہاب زہری ؓ نے حضرت سالم اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے واسطے سے رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا: مجھے حضرت سالم ؓ نے وہ دستاویز پڑھوائی جو رسول اللہ ﷺ نے فوت ہونے سے پہلے زکاۃ کے بارے میں تحریر فرمائی تھی۔ (امام زہری فرماتے ہیں) مجھے اس دستاویز میں یہ عبارت لکھی ہوئی ملی: چالیس سے ایک سو بیس بکریوں تک ایک بکری (زکاۃ) ہے۔ اگر ایک بھی زیادہ ہو جائے تو (ایک سو اکیس سے لے کر) دو سو تک دو بکریاں (واجب الادا) ہیں۔ اگر ان میں ایک بھی زیادہ ہو تو (دو سو ایک سے لے کر) تین سو تک تین بکریاں ہیں۔ اگر اس سے زیادہ ہوں تو ہر سو پر ایک بکری ہے۔ میں نے اس میں یہ (حکم) بھی پایا: الگ الگ (ریوڑوں) کو جمع نہ کیا جائے اور اکٹھے (ایک) ریوڑ کو الگ الگ نہ کیا جائے۔ اور مجھے اس میں یہ (حکم) بھی (لکھا ہوا) ملا: زکاۃ میں سانڈ وصول کیا جائے، نہ بوڑھا جانور اور نہ عیب دار جانور۔
تشریح : 1۔گائے یا اونٹنی ایک وقت میں ایک بچہ دیتی ہیں لیکن بکریاں زیادہ بچے دیتی ہیں ، اس لیے بکریوں کے ریوڑ میں بچے زیادہ ہوتے ہیں ۔ اس چیز کے پیش نظر شریعت نے بکریوں میں زکاۃ کی شرح کم رکھی ہے ۔ ریوڑ کی بکریوں اور بچوی کی کل تعداد اگر چالیس سے کم ہو تو اس مال پر کوئی زکاۃ فرض نہیں ۔ چالیس سے ایک سو بیس کی تعداد پر زکاۃ صرف ایک بکری ہے ۔ ایک سو اکیس سے دو سو تک کے ریوڑ پر زکاۃ میں دو بکریاں ادا کرنا واجب ہے ۔ دو سو ایک سے تین سو ننانوے تک زکاۃ کی مقدار تین بکریاں ہے ۔جب چار سو پوری ہوں گی تو چار بکریاں ادا اور وصول کی جائیں گی ۔ اس سے زیادہ تعداد میں جتنے پورے سو ہوں گے ، اتنی ہی بکریاں زکاۃ ہو گی ۔ پورے سینکڑوں سے زائد بکریوں پر زکاۃ نہیں ۔ الگ الگ ریوڑوں کو جمع کرنے کی صورت یہ ہے ، مثلا: دو آدمیوں کے پاس چالیس چالیس بکریاں تھیں جن میں سے ہر ریوڑ پر ایک ایک بکری زکاۃ ہے ۔ انہیں کل دو بکریاں ادا کرنا تھیں ۔ انہوں نے اپنی بکریاں ملا کر ایک ریوڑ بنا لیا ۔ اس طرح اسی ( 80) بکریوں پر ایک ہی بکری زکاۃ دے کر ایک بکری بچا لی ۔ جب وصول کرنے والا چلا گیا تو دونوں پھر الگ الگ ہو گئے ۔ ایک ریوڑ کے دو ریوڑ بنا کر زکاۃ بچا لینے کی مثال یہ ہے کہ دو آدمیوں کے مشترکہ ریوڑ میں دو سو بیس بکریاں تھیں ، لہذا ان پر تین بکریاں زکاۃ ہے انہوں نے اس کے دو ریوڑ بنا لیے جن میں سے ہر ایک ریوڑ میں ایک سو دس بکریاں ہیں ۔ اس طرح ہر ریوڑ پر ایک بکری زکاۃ واجب ہوئی اور مجموعی طور پر دو بکریاں زکاۃ دی گئیں اور ایک بکری بچا لی گئی یا کسی ریوڑ میں ساتھ بکریاں تھیں جن پر ایک بکری زکاۃ ہے ۔ انہیں دو حصوں میں تقسیم کر کے تیس تیس کے دو ریوڑ بنا لیے گئے ۔ جن پر کوئی زکاۃ نہیں ۔ ایک ریوڑ کے دو یا دو ریوڑوں کو ایک بنانے کا عمل زکاۃ وصول کرنے والے افر ( عامل ) کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے تاکہ زیادہ زکاۃ وصول ہو یہ بھی منع ہے ۔ اس کی مثال سو بکریوں کو پچاس پچاس کے دو حصوں میں تقسیم کرنا ہے تاکہ ایک کے بجائے دو بکریاں وصول ہوں یا دو ایسے ریوڑوں کو ایک قرار دینا جن میں سے ہر ایک میں ایک سو پندرہ بکریاں تھیں تاکہ دو بکریاں وصول ہوں یا دو ایسے ریوڑوں کو ایک قرار دینا جن میں سے ہر ایک میں ایک سو پندرہ بکریاں تھیں تاکہ دو بکریوں کے بجائے تین بکریاں وصول کی جائیں ۔ سانڈے سے مراد وہ نر جانور ہے جو ریوڑ میں افزائش نسل کے لیے رکھا جاتا ہے ۔ اس کی اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ وہ مالک کے لیے قیمتی ہے جب کہ بوڑھا اور عیب دار جانور جس مستحق کو دیا جائے گا اس کی حق تلفی شمار ہوگی کیونکہ وہ اس سے پورا فائدہ نہیں اٹھا سکے گا ۔ یہ حکم اس لیے دیا گیا کہ نہ زکاۃ دینے والے کو نقصان ہو نہ زکاۃ لینے والے کو ۔ 1۔گائے یا اونٹنی ایک وقت میں ایک بچہ دیتی ہیں لیکن بکریاں زیادہ بچے دیتی ہیں ، اس لیے بکریوں کے ریوڑ میں بچے زیادہ ہوتے ہیں ۔ اس چیز کے پیش نظر شریعت نے بکریوں میں زکاۃ کی شرح کم رکھی ہے ۔ ریوڑ کی بکریوں اور بچوی کی کل تعداد اگر چالیس سے کم ہو تو اس مال پر کوئی زکاۃ فرض نہیں ۔ چالیس سے ایک سو بیس کی تعداد پر زکاۃ صرف ایک بکری ہے ۔ ایک سو اکیس سے دو سو تک کے ریوڑ پر زکاۃ میں دو بکریاں ادا کرنا واجب ہے ۔ دو سو ایک سے تین سو ننانوے تک زکاۃ کی مقدار تین بکریاں ہے ۔جب چار سو پوری ہوں گی تو چار بکریاں ادا اور وصول کی جائیں گی ۔ اس سے زیادہ تعداد میں جتنے پورے سو ہوں گے ، اتنی ہی بکریاں زکاۃ ہو گی ۔ پورے سینکڑوں سے زائد بکریوں پر زکاۃ نہیں ۔ الگ الگ ریوڑوں کو جمع کرنے کی صورت یہ ہے ، مثلا: دو آدمیوں کے پاس چالیس چالیس بکریاں تھیں جن میں سے ہر ریوڑ پر ایک ایک بکری زکاۃ ہے ۔ انہیں کل دو بکریاں ادا کرنا تھیں ۔ انہوں نے اپنی بکریاں ملا کر ایک ریوڑ بنا لیا ۔ اس طرح اسی ( 80) بکریوں پر ایک ہی بکری زکاۃ دے کر ایک بکری بچا لی ۔ جب وصول کرنے والا چلا گیا تو دونوں پھر الگ الگ ہو گئے ۔ ایک ریوڑ کے دو ریوڑ بنا کر زکاۃ بچا لینے کی مثال یہ ہے کہ دو آدمیوں کے مشترکہ ریوڑ میں دو سو بیس بکریاں تھیں ، لہذا ان پر تین بکریاں زکاۃ ہے انہوں نے اس کے دو ریوڑ بنا لیے جن میں سے ہر ایک ریوڑ میں ایک سو دس بکریاں ہیں ۔ اس طرح ہر ریوڑ پر ایک بکری زکاۃ واجب ہوئی اور مجموعی طور پر دو بکریاں زکاۃ دی گئیں اور ایک بکری بچا لی گئی یا کسی ریوڑ میں ساتھ بکریاں تھیں جن پر ایک بکری زکاۃ ہے ۔ انہیں دو حصوں میں تقسیم کر کے تیس تیس کے دو ریوڑ بنا لیے گئے ۔ جن پر کوئی زکاۃ نہیں ۔ ایک ریوڑ کے دو یا دو ریوڑوں کو ایک بنانے کا عمل زکاۃ وصول کرنے والے افر ( عامل ) کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے تاکہ زیادہ زکاۃ وصول ہو یہ بھی منع ہے ۔ اس کی مثال سو بکریوں کو پچاس پچاس کے دو حصوں میں تقسیم کرنا ہے تاکہ ایک کے بجائے دو بکریاں وصول ہوں یا دو ایسے ریوڑوں کو ایک قرار دینا جن میں سے ہر ایک میں ایک سو پندرہ بکریاں تھیں تاکہ دو بکریاں وصول ہوں یا دو ایسے ریوڑوں کو ایک قرار دینا جن میں سے ہر ایک میں ایک سو پندرہ بکریاں تھیں تاکہ دو بکریوں کے بجائے تین بکریاں وصول کی جائیں ۔ سانڈے سے مراد وہ نر جانور ہے جو ریوڑ میں افزائش نسل کے لیے رکھا جاتا ہے ۔ اس کی اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ وہ مالک کے لیے قیمتی ہے جب کہ بوڑھا اور عیب دار جانور جس مستحق کو دیا جائے گا اس کی حق تلفی شمار ہوگی کیونکہ وہ اس سے پورا فائدہ نہیں اٹھا سکے گا ۔ یہ حکم اس لیے دیا گیا کہ نہ زکاۃ دینے والے کو نقصان ہو نہ زکاۃ لینے والے کو ۔