Book - حدیث 1801

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ مَا يَأْخُذُ الْمُصَدِّقُ مِنَ الْإِبِلِ حسن حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عُثْمَانَ الثَّقَفِيِّ، عَنْ أَبِي لَيْلَى الْكِنْدِيِّ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، قَالَ: جَاءَنَا مُصَدِّقُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذْتُ بِيَدِهِ وَقَرَأْتُ فِي عَهْدِهِ: لَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ، وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ، خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ بِنَاقَةٍ عَظِيمَةٍ مُلَمْلَمَةٍ، فَأَبَى أَنْ يَأْخُذَهَا، فَأَتَاهُ بِأُخْرَى دُونَهَا، فَأَخَذَهَا، وَقَالَ: أَيُّ أَرْضٍ تُقِلُّنِي، وَأَيُّ سَمَاءٍ تُظِلُّنِي، إِذَا أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أَخَذْتُ خِيَارَ إِبِلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ

ترجمہ Book - حدیث 1801

کتاب: زکاۃ کے احکام و مسائل باب: عامل کس قسم کے اونٹ وصول کرے؟ حضرت سوید بن غفلہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہمارے پاس نبی ﷺ کا عامل (زکاۃ وصول کرنے والا ) آیا۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کے حکم نامے میں پڑھا: صدقے کے ڈر سے الگ الگ ریوڑوں کو جمع نہ کیا جائے اور نہ اکٹھے ریوڑ کو الگ الگ کیا جائے۔ ایک آدمی ایک موٹی تازی بڑی سے اونٹنی لے کر حاضر ہوا، انہوں نے اسے لینے سے انکار کر دیا تو وہ اس سے کم درجے کی ایک اور اونٹنی لے آیا، انہوں نے وہ لے لی اور فرمایا: مجھے کون سی زمین سہارا دے گی؟ اور کون سا آسمان مجھ پر سایہ کرے گا اگر میں کسی مسلمان کے بہترین اونٹ وصول کر کے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں گا؟
تشریح : (1)مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سندا ضعیف قرار دیا ہے جبکہ بعض محققین نے صحیح اور بعض نے حسن قرار دیا ہے اور اس کے متابعات اور شواہد ذکر کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت سندا ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے ( الموسوعۃ الحدیثۃ ، مسند الامام احمد : 31؍132،133 ، وصحیح ابی داؤد ( مفصل ) رقم : 1409 ، وسنن ابن ماجہ للدکتور بشار عواد ، حدیث : 1801) حضرت سوید بن غفلہ  رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں اسلام قبول کرچکے تھے لیکن رسول اللہ ‎ﷺ کی زیارت نہیں کرسکے ۔ مدنیہ منورہ اس وقت پہنچے جب صحابہ کرام نبی اکرم ﷺ کی تدفین سے فارغ ہو چکے تھے ، اس لیے ان کا شمار صحابہ کرام میں نہیں ہوتا ، البتہ کبار تابعین میں شامل ہیں جنہیں بہت سے صحابہ کرام کی زیارت اور ملاقات کا شرف حاصل ہوا ۔ عامل ہمارے پاس آیا ، یعنی ہمارے قبیلے کی زکاۃ وصول کرنے کے لیے آیاا ۔ حضرت سوید بن غفلہ  جعفی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ حکم نامے سے مراد وہ تحریر تھی جو رسول اللہ ﷺ نے لکھوا کر عامل کو دی تھی تاکہ اس کے مطابق زکاۃ وصول کریں ۔ حضرت سوید  نے اس صحابی سے ملاقات کی اور نبی ﷺ کی تحریری ہدایات خود پڑھیں۔ زکاۃ میں میانہ درجے کا مال وصول کرنا چاہیے نہ بہترین جانور لیا جائے جس سے مالک کو نقصان ہو اور نہ بالکل نکما جانور لیا جائے جس سے کسی غریب کو فائدہ ہی نہ ہو ۔ صحابہ کرام جب کسی عہدے پر فائز ہوتے تھے تو عدل و انصاف کا انتہائی خیال رکھتے تھے ۔ الگ الگ ریوڑوں کو جمع کرنے اور اکٹھے ریوڑ کو الگ الگ کرنے کی وضاحت کے لیے اگلے باب میں حدیث : 1805 کا فائدہ نمبر : 8 ملاحظہ فرمائیں۔ (1)مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سندا ضعیف قرار دیا ہے جبکہ بعض محققین نے صحیح اور بعض نے حسن قرار دیا ہے اور اس کے متابعات اور شواہد ذکر کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت سندا ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے ( الموسوعۃ الحدیثۃ ، مسند الامام احمد : 31؍132،133 ، وصحیح ابی داؤد ( مفصل ) رقم : 1409 ، وسنن ابن ماجہ للدکتور بشار عواد ، حدیث : 1801) حضرت سوید بن غفلہ  رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں اسلام قبول کرچکے تھے لیکن رسول اللہ ‎ﷺ کی زیارت نہیں کرسکے ۔ مدنیہ منورہ اس وقت پہنچے جب صحابہ کرام نبی اکرم ﷺ کی تدفین سے فارغ ہو چکے تھے ، اس لیے ان کا شمار صحابہ کرام میں نہیں ہوتا ، البتہ کبار تابعین میں شامل ہیں جنہیں بہت سے صحابہ کرام کی زیارت اور ملاقات کا شرف حاصل ہوا ۔ عامل ہمارے پاس آیا ، یعنی ہمارے قبیلے کی زکاۃ وصول کرنے کے لیے آیاا ۔ حضرت سوید بن غفلہ  جعفی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ حکم نامے سے مراد وہ تحریر تھی جو رسول اللہ ﷺ نے لکھوا کر عامل کو دی تھی تاکہ اس کے مطابق زکاۃ وصول کریں ۔ حضرت سوید  نے اس صحابی سے ملاقات کی اور نبی ﷺ کی تحریری ہدایات خود پڑھیں۔ زکاۃ میں میانہ درجے کا مال وصول کرنا چاہیے نہ بہترین جانور لیا جائے جس سے مالک کو نقصان ہو اور نہ بالکل نکما جانور لیا جائے جس سے کسی غریب کو فائدہ ہی نہ ہو ۔ صحابہ کرام جب کسی عہدے پر فائز ہوتے تھے تو عدل و انصاف کا انتہائی خیال رکھتے تھے ۔ الگ الگ ریوڑوں کو جمع کرنے اور اکٹھے ریوڑ کو الگ الگ کرنے کی وضاحت کے لیے اگلے باب میں حدیث : 1805 کا فائدہ نمبر : 8 ملاحظہ فرمائیں۔