Book - حدیث 1796

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ مَا يُقَالُ عِنْدَ إِخْرَاجِ الزَّكَاةِ صحیح عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى، يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا أَتَاهُ الرَّجُلُ بِصَدَقَةِ مَالِهِ، صَلَّى عَلَيْهِ، فَأَتَيْتُهُ بِصَدَقَةِ مَالِي، فَقَالَ: «اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ أَبِي أَوْفَى»

ترجمہ Book - حدیث 1796

کتاب: زکاۃ کے احکام و مسائل باب: جب کوئی زکاۃ ادا کرے تو اسے کیا کہا جائے ؟ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اپنے مال کا صدقہ (زکاۃ) لے کر حاضر ہوتا تو نبی ﷺ اس کو دعا دیتے۔ میں اپنے مال کی زکاۃ لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: اے اللہ! ابواوفیٰ کے خاندان پر رحمت نازل فرما۔
تشریح : (1)سونے چاندی اور نقدی ( اموال باطنہ ) کی زکاۃ صاحب نصاب کو خود حاضر ہو کر ادا کرنی چاہیے ۔ غلے اور مویشیوں ( اموال ظاہرہ) کی زکاۃ اسلامی حکومت کا مقرر کردہ افسر صاحب نصاب کے پاس پہنچ کر وصول کرے ۔(2) اسلامی معاشرے میں عوام اور حکومت کے مابین محبت اور احترام کا تعلق ہوتا ہے ۔ زکاۃ وصول کرنے والے کو چاہیے کہ زکاۃ ادا کرنے والے کا شکریہ ادا کرے اور اسے دعا دے ۔(3) ’’ آل‘‘ کے لفظ میں وہ شخص خود بھی داخل ہوتا ہے جس کی آل کا ذکر کیا جاتا ہے اس کے علاوہ اس کی اولاد اور وہ افراد جو اس کے زیردست ہیں اور وہ ان کا سردار سمجھا جاتا ہے ، وہ بھی ’’ آل‘‘ میں شامل ہوسکتے ہیں ۔ بعض اوقات ’’ آل‘‘ سے متبعین اور پیروکار بھی مراد لیے جاتے ہیں ، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْ‌عَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ) ( المومن 40:4) ’’ اور جس دن قیامت قائم ہوگی ( ہم کہیں گے) فرعون کی آل کو شدید ترین عذاب میں داخل کردو ۔‘‘ اس آیت میں آل سے اولاد مراد نہیں کیونکہ فرعون لاولد تھا ۔ اور اس کی بیوی ( حضرت آسیہ علیہما السلام) مسلمان تھیں۔ (1)سونے چاندی اور نقدی ( اموال باطنہ ) کی زکاۃ صاحب نصاب کو خود حاضر ہو کر ادا کرنی چاہیے ۔ غلے اور مویشیوں ( اموال ظاہرہ) کی زکاۃ اسلامی حکومت کا مقرر کردہ افسر صاحب نصاب کے پاس پہنچ کر وصول کرے ۔(2) اسلامی معاشرے میں عوام اور حکومت کے مابین محبت اور احترام کا تعلق ہوتا ہے ۔ زکاۃ وصول کرنے والے کو چاہیے کہ زکاۃ ادا کرنے والے کا شکریہ ادا کرے اور اسے دعا دے ۔(3) ’’ آل‘‘ کے لفظ میں وہ شخص خود بھی داخل ہوتا ہے جس کی آل کا ذکر کیا جاتا ہے اس کے علاوہ اس کی اولاد اور وہ افراد جو اس کے زیردست ہیں اور وہ ان کا سردار سمجھا جاتا ہے ، وہ بھی ’’ آل‘‘ میں شامل ہوسکتے ہیں ۔ بعض اوقات ’’ آل‘‘ سے متبعین اور پیروکار بھی مراد لیے جاتے ہیں ، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْ‌عَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ) ( المومن 40:4) ’’ اور جس دن قیامت قائم ہوگی ( ہم کہیں گے) فرعون کی آل کو شدید ترین عذاب میں داخل کردو ۔‘‘ اس آیت میں آل سے اولاد مراد نہیں کیونکہ فرعون لاولد تھا ۔ اور اس کی بیوی ( حضرت آسیہ علیہما السلام) مسلمان تھیں۔