Book - حدیث 1791

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ زَكَاةِ الْوَرِقِ وَالذَّهَبِ صحیح حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَا: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى قَالَ: أَنْبَأَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «كَانَ يَأْخُذُ مِنْ كُلِّ عِشْرِينَ دِينَارًا فَصَاعِدًا نِصْفَ دِينَارٍ، وَمِنَ الْأَرْبَعِينَ دِينَارًا دِينَارًا»

ترجمہ Book - حدیث 1791

کتاب: زکاۃ کے احکام و مسائل باب: چاندی اور سونے کی زکاۃ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنھم سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ہر بیس دینار یا (اس سے کچھ) زیادہ، میں سے آدھا دینار اور چالیس دینار میں سے ایک دینار وصول فرماتے تھے۔
تشریح : (1) جو گھوڑے کام کاج کے لیے ہوں اور جو غلام خدمت کے لیے ہوں ، ان کی زکاۃ دینا فرض نہیں لیکن اگر کوئی شخص گھوڑوں یا غلاموں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتا ہو تو اسے دوسرے مال تجارت کی طرح ان کی قیمت کا اندازہ کر کے ان کی زکاۃ ادا کرنی چاہیے اس کے بارے میں متعدد روایات موجود ہیں لیکن ان کی سندوں میں کلام ہے تاہم کہا جاسکتا ہے کہ یہ احادیث باہم مل کر قابل استدلال ہو سکتی ہیں ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز  نے بھی تاجروں سے مال تجارت پر زکاۃ وصول کرنے کے احکامات جاری فرمائے تھے ۔ ( موطا امام مالک ، باب زکاۃ العروض : 1؍235) اس کی سند حسن ہے ۔ امام بیہقی  نے مال تجارت پر زکاۃ کے وجوب کو ترجیح دیتے ہوئے فرمایا ہے : ( وہذا قول عامۃ اہل العلم ) ( سنن البیہقی : 4؍147) ’’ اکثر علماء کا یہی قول ہے۔‘‘ (2) درہم چاندی کا سکہ تھا جس کا وزن موجودہ حساب سے 2.975 گرام اور بعض کے نزدیک 3.06 گرام ہے ۔ کم از کم دو سو درہم چاندی ہو تو زکاۃ واجب ہوتی ہے ۔ ارشاد نبوی ہے : ’’ پانچ اوقیہ سے کم میں زکاۃ نہیں ۔‘‘ ( صحیح البخاری ، الزکاۃ ، باب زکاۃ الورق ، حدیث : 1447) اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے ۔ ( جامع الترمذی ، الزکاۃ ، باب ما جاء فی صدقۃ الزرع والثمر والحبوب ، حدیث : 627) اکثر علماء نے دو سو درہم کی مقدار ساڑھے باون تولے بیان کی ہے ۔ (3) سونے کا نصاب بیس دینار ہے جس کی مقدار ساڑھے سات تولے ہوتی ہے ۔ جب کہ موجودہ دور کے حساب سے اس کا وزن 85 گرام بنتا ہے ۔ (4) سونے اور چاندی میں زکاۃ کی مقدار چالیسواں حصہ ہے ، مثلا : اگر کسی کے پاس دس تولے سونا ہو تو اسے چوتھائی تولہ ( تین ماشے یعنی 2.916 گرام) سونے کے برابر زکاۃ ادا کرنا فرض ہوگی۔ (5) نقد رقم کا نصاب سونے کے برابر ہے کیونکہ موجودہ نظام کے مطابق کرنسی نوٹ سونے کے قائم مقام قرار دیے جاتے ہیں ، اس لیے بین الاقوامی تجارت میں ممالک ایک دوسرے سے سونا وصول اور ادا کرتے ہیں تاہم علماء کی اکثریت نے نقد رقم کی زکاۃ کے لیے چاندی کے نصاب کو بنیاد بنایا ہے ، یعنی کم از کم ساڑھے باون تولے چاندی کی رقم کے برابر جس کے پاس رقم فالتو پڑی ہو اور اس پر سال گزر جائے تو وہ اس میں سے ڈھائی فی صد کے حساب سے زکاۃ ادا کرے ۔ اس کی وجہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ اس نصاب میں غرباء و مساکین کا زیادہ فائدہ ہے کیونکہ اس طرح اہل نصاب زیادہ ہوں گے اور زیادہ زکاۃ نکلے گی ۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (1) جو گھوڑے کام کاج کے لیے ہوں اور جو غلام خدمت کے لیے ہوں ، ان کی زکاۃ دینا فرض نہیں لیکن اگر کوئی شخص گھوڑوں یا غلاموں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتا ہو تو اسے دوسرے مال تجارت کی طرح ان کی قیمت کا اندازہ کر کے ان کی زکاۃ ادا کرنی چاہیے اس کے بارے میں متعدد روایات موجود ہیں لیکن ان کی سندوں میں کلام ہے تاہم کہا جاسکتا ہے کہ یہ احادیث باہم مل کر قابل استدلال ہو سکتی ہیں ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز  نے بھی تاجروں سے مال تجارت پر زکاۃ وصول کرنے کے احکامات جاری فرمائے تھے ۔ ( موطا امام مالک ، باب زکاۃ العروض : 1؍235) اس کی سند حسن ہے ۔ امام بیہقی  نے مال تجارت پر زکاۃ کے وجوب کو ترجیح دیتے ہوئے فرمایا ہے : ( وہذا قول عامۃ اہل العلم ) ( سنن البیہقی : 4؍147) ’’ اکثر علماء کا یہی قول ہے۔‘‘ (2) درہم چاندی کا سکہ تھا جس کا وزن موجودہ حساب سے 2.975 گرام اور بعض کے نزدیک 3.06 گرام ہے ۔ کم از کم دو سو درہم چاندی ہو تو زکاۃ واجب ہوتی ہے ۔ ارشاد نبوی ہے : ’’ پانچ اوقیہ سے کم میں زکاۃ نہیں ۔‘‘ ( صحیح البخاری ، الزکاۃ ، باب زکاۃ الورق ، حدیث : 1447) اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے ۔ ( جامع الترمذی ، الزکاۃ ، باب ما جاء فی صدقۃ الزرع والثمر والحبوب ، حدیث : 627) اکثر علماء نے دو سو درہم کی مقدار ساڑھے باون تولے بیان کی ہے ۔ (3) سونے کا نصاب بیس دینار ہے جس کی مقدار ساڑھے سات تولے ہوتی ہے ۔ جب کہ موجودہ دور کے حساب سے اس کا وزن 85 گرام بنتا ہے ۔ (4) سونے اور چاندی میں زکاۃ کی مقدار چالیسواں حصہ ہے ، مثلا : اگر کسی کے پاس دس تولے سونا ہو تو اسے چوتھائی تولہ ( تین ماشے یعنی 2.916 گرام) سونے کے برابر زکاۃ ادا کرنا فرض ہوگی۔ (5) نقد رقم کا نصاب سونے کے برابر ہے کیونکہ موجودہ نظام کے مطابق کرنسی نوٹ سونے کے قائم مقام قرار دیے جاتے ہیں ، اس لیے بین الاقوامی تجارت میں ممالک ایک دوسرے سے سونا وصول اور ادا کرتے ہیں تاہم علماء کی اکثریت نے نقد رقم کی زکاۃ کے لیے چاندی کے نصاب کو بنیاد بنایا ہے ، یعنی کم از کم ساڑھے باون تولے چاندی کی رقم کے برابر جس کے پاس رقم فالتو پڑی ہو اور اس پر سال گزر جائے تو وہ اس میں سے ڈھائی فی صد کے حساب سے زکاۃ ادا کرے ۔ اس کی وجہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ اس نصاب میں غرباء و مساکین کا زیادہ فائدہ ہے کیونکہ اس طرح اہل نصاب زیادہ ہوں گے اور زیادہ زکاۃ نکلے گی ۔ واللہ اعلم بالصواب۔