Book - حدیث 1759

كِتَاب الصِّيَامِ بَابُ مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ مِنْ نَذْرٍ صحیح حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ جَاءَتْ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمٌ أَفَأَصُومُ عَنْهَا قَالَ نَعَمْ

ترجمہ Book - حدیث 1759

کتاب: روزوں کی اہمیت وفضیلت باب: جس شخص کے ذمے نذر کے روزےہوں اور(قضادینے سے پہلے)اس کی وفات ہو جائے تو؟ بریدہ بن حصیب ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ایک خاتون نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی: اے اللہ کے رسول! میری والدہ فوت ہوگئی اور ان کے ذمے روزے تھے ۔ کیا میں ان کی طرف سے روزے رکھوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں۔ ‘‘
تشریح : 1۔فو ت شدہ شخص کے ذمے اگر روزے ہو ں تو اس کے وارث اس کی طرف سے روزے رکھ سکتے ہیں 2 روزے خواہ رمضا ن کے ہوں یا نذر کے یا کفار کے سب کا ایک ہی حکم ہے کیو نکہ یہ سب اللہ کا قرض ہے ارشاد نبوی ہے جو شخص فو ت ہو جا ئے اور اس کے ذمے روزے ہو ں اس کادلی وارث اس کی طرف سے روزے رکھے (صحیح البخاری الصوم ۔باب من مات وعلیہ صوم حدیث 1953)اگر دلی یعنی وارث اس کی طرف سے روزے نہ رکھیں تو پھر گزشتہ حدیث 1757 میں جو بیان ہو ا ہے اس پر عمل کیا جا ئے گا کہ ہر دن کے روزے کی جگہ ایک مسکین کو کھا نا کھلا دیا جا ئے گو وہ روایت مر فو عا ضعیف ہے لیکن مو قو فا صحیح ہے ایک اور روایت حضرتے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے صحیح ابن خز یمہ میں بھی مروی ہے کہ ہر دن نصف صا ع گند م دی جا ئے ((صحیح ابن خزیمہ حدیث 2057)۔3 روزے پر دوسری عبا دات مثلا نما ز کو قیاس نہیں کر سکتے کیو نکہ عبادات کے لئے نص د لیل کا ہو نا لا ز می امر ہے عبا دت کے جن معا ملا ت میں نیا بت حدیث سے ثا بت ہے و ہی کر یں گے با قی کے با رے میں تو قف کر یں گے ۔ 1۔فو ت شدہ شخص کے ذمے اگر روزے ہو ں تو اس کے وارث اس کی طرف سے روزے رکھ سکتے ہیں 2 روزے خواہ رمضا ن کے ہوں یا نذر کے یا کفار کے سب کا ایک ہی حکم ہے کیو نکہ یہ سب اللہ کا قرض ہے ارشاد نبوی ہے جو شخص فو ت ہو جا ئے اور اس کے ذمے روزے ہو ں اس کادلی وارث اس کی طرف سے روزے رکھے (صحیح البخاری الصوم ۔باب من مات وعلیہ صوم حدیث 1953)اگر دلی یعنی وارث اس کی طرف سے روزے نہ رکھیں تو پھر گزشتہ حدیث 1757 میں جو بیان ہو ا ہے اس پر عمل کیا جا ئے گا کہ ہر دن کے روزے کی جگہ ایک مسکین کو کھا نا کھلا دیا جا ئے گو وہ روایت مر فو عا ضعیف ہے لیکن مو قو فا صحیح ہے ایک اور روایت حضرتے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے صحیح ابن خز یمہ میں بھی مروی ہے کہ ہر دن نصف صا ع گند م دی جا ئے ((صحیح ابن خزیمہ حدیث 2057)۔3 روزے پر دوسری عبا دات مثلا نما ز کو قیاس نہیں کر سکتے کیو نکہ عبادات کے لئے نص د لیل کا ہو نا لا ز می امر ہے عبا دت کے جن معا ملا ت میں نیا بت حدیث سے ثا بت ہے و ہی کر یں گے با قی کے با رے میں تو قف کر یں گے ۔