Book - حدیث 175

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فِي ذِكْرِ الْخَوَارِجِ صحیح حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ أَبُو بِشْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَخْرُجُ قَوْمٌ فِي آخِرِ الزَّمَانِ، أَوْ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، أَوْ حُلُوقَهُمْ، سِيمَاهُمُ التَّحْلِيقُ، إِذَا رَأَيْتُمُوهُمْ، أَوْ إِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ»

ترجمہ Book - حدیث 175

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: خوارج کا بیان حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے ، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:‘‘ آخر زمانے میں یا فرمایا: اس امت میں کچھ لوگ ظاہر ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے اور وہ ان کے حلقوں سے آگے نہیں گزرے گا، ان کی علامت سر منڈانا ہے، جب تم انہیں دیکھو یا فرمایا: جب تم ان سے ملو، تو انھیں قتل کرو۔’’
تشریح : (1) اس روایت کی تحقیقی کی بابت ہمارے فاضل محقق لکھتے ہیں کہ یہ روایت سندا ضعیف ہے، البتہ صحیح بخاری کی حدیث (7562) اس سے کفایت کرتی ہے، علاوہ ازیں شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے، لہذا معلوم ہوا یہ روایت سندا ضعیف ہونے کے باوجود قابل حجت ہے۔ (2) سر کا منڈانا، خارجیوں کی علامت ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ جو بھی سر منڈائے وہ کارجی ہے بلکہ صرف یہ مطلب ہے کہ ان میں یہ عادت پائی جائے گی، ورنہ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ ہمیشہ سر منڈاتے تھے جبکہ خارجی ان کے سخت دشمن تھے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے سکھوں کی علامات بیان کرتے ہوئے ان کی ایک علامت داڑھی رکھنا بیان کی جائے، تو لوگ ہر پوری داڑھی رکھنے والے کو سکھ کہنا شروع کر دیں۔ ظاہر بات ہے ایسا کہنا یا سمجھنا سوائے جہالت کے کچھ نہیں۔ اسی طرح بعض اہل بدعت، اہلحدیث کو سنت کے مطابق لمبی نماز پڑھنے، ذوق و شوق سے تلاوت کرنے اور فیشنی بال رکھنےکی بجائے سر کے بال منڈانے پر، انہیں خوارج باور کراتے ہیں، جو حقائق کے یکسر خلاف ہے، جہالت کا مظاہرہ بھی ہے اور سنت پر اور صحیح اسلام پر عمل کرنے کی اہمیت و فضیلت سے انکار بھی۔ اعاذنالله منها. (3) انہیں قتل کر دو اس کا مطلب ہے ان سے جنگ کرو تاکہ ان کا فتنہ ختم ہو جائے۔ (1) اس روایت کی تحقیقی کی بابت ہمارے فاضل محقق لکھتے ہیں کہ یہ روایت سندا ضعیف ہے، البتہ صحیح بخاری کی حدیث (7562) اس سے کفایت کرتی ہے، علاوہ ازیں شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے، لہذا معلوم ہوا یہ روایت سندا ضعیف ہونے کے باوجود قابل حجت ہے۔ (2) سر کا منڈانا، خارجیوں کی علامت ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ جو بھی سر منڈائے وہ کارجی ہے بلکہ صرف یہ مطلب ہے کہ ان میں یہ عادت پائی جائے گی، ورنہ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ ہمیشہ سر منڈاتے تھے جبکہ خارجی ان کے سخت دشمن تھے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے سکھوں کی علامات بیان کرتے ہوئے ان کی ایک علامت داڑھی رکھنا بیان کی جائے، تو لوگ ہر پوری داڑھی رکھنے والے کو سکھ کہنا شروع کر دیں۔ ظاہر بات ہے ایسا کہنا یا سمجھنا سوائے جہالت کے کچھ نہیں۔ اسی طرح بعض اہل بدعت، اہلحدیث کو سنت کے مطابق لمبی نماز پڑھنے، ذوق و شوق سے تلاوت کرنے اور فیشنی بال رکھنےکی بجائے سر کے بال منڈانے پر، انہیں خوارج باور کراتے ہیں، جو حقائق کے یکسر خلاف ہے، جہالت کا مظاہرہ بھی ہے اور سنت پر اور صحیح اسلام پر عمل کرنے کی اہمیت و فضیلت سے انکار بھی۔ اعاذنالله منها. (3) انہیں قتل کر دو اس کا مطلب ہے ان سے جنگ کرو تاکہ ان کا فتنہ ختم ہو جائے۔