كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فِي ذِكْرِ الْخَوَارِجِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بِالْجِعْرَانَةِ وَهُوَ يَقْسِمُ التِّبْرَ وَالْغَنَائِمَ، وَهُوَ فِي حِجْرِ بِلَالٍ، فَقَالَ رَجُلٌ: اعْدِلْ يَا مُحَمَّدُ فَإِنَّكَ لَمْ تَعْدِلْ، فَقَالَ: «وَيْلَكَ، وَمَنْ يَعْدِلُ بَعْدِي إِذَا لَمْ أَعْدِلْ؟» فَقَالَ عُمَرُ: دَعْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ حَتَّى أَضْرِبَ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ هَذَا فِي أَصْحَابٍ، أَوْ أُصَيْحَابٍ لَهُ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ»
کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت
باب: خوارج کا بیان
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جعرانہ مقام پر مال غنیمت اور سونا تقسیم کر رہے تھے جو حضرت بلال ؓ کی جھولی میں تھا۔ ایک آدمی نے کہا: اے محمد!(ﷺ) انصاف کیجئے، آپ نے انصاف نہیں کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:‘‘ افسوس ہے تجھ پر! اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو پھر میرے بعد اور کون انصاف کرے گا؟’’ سیدنا عمر ؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اجازت دیجئے کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:‘‘ یہ شخص بھی اپنے ان ساتھیوں میں شامل ہے جو قرآن پڑھیں گے ، لیکن وہ ان کے گلے سے آگے نہیں گزرے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر نشانہ بننے والے جانور میں سے پار ہوجاتا ہے۔’’
تشریح :
(1) جس شخص نے یہ گستاخی کی اس کا نام ذوالخويصره تھا۔ اور یہ غزوہ حنین کے بعد پیش آیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جعرانه کے مقام پر غزوہ حنین سے حاصل ہونے والا مال غنیمت مجاہدین میں تقسیم فرمایا۔ (2) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل یا فرمان پر اعتراض کرنا یا اسے غلط قرار دینا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم کو ناقابل عمل قرار دینا منافقوں کا شیوہ ہے، مومن سے ایسی حرکت کا صدور ممکن نہیں۔ (3) اس واقعہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلم و عفو، اور صبر و برداشت کی ایک اعلیٰ مثال ہے کہ ایسی گستاخی کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سزا نہیں دی۔ (4) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب اس شخص کو منافق قرار دے کر قتل کرنے کی اجازت طلب کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تردید نہیں فرمائی۔ گویا اس شخص کے منافق ہونے کی تصدیق فرمائی، تاہم حکمت کی بنا پر اسے سزائے موت دینے سے احتراز فرمایا۔ (5) اس شخص کی حرکت میں ارشاد نبوی کی حجت کا انکار پایا جاتا ہے، بعد میں خوارج نے بھی بہت سی احادیث کا انکار کیا کیونکہ ان کے خیال میں وہ قرآن کے اس مزعومہ مفہوم کے خلاف تھیں جو ان کے خیال میں قرآن کا صحیح مطلب تھا۔ لیکن اہل سنت کی نظر میں قرآن مجید کی آیات کا وہی مطلب درست ہوتا ہے جس کی تائید صحیح احادیث سے ہو۔
(1) جس شخص نے یہ گستاخی کی اس کا نام ذوالخويصره تھا۔ اور یہ غزوہ حنین کے بعد پیش آیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جعرانه کے مقام پر غزوہ حنین سے حاصل ہونے والا مال غنیمت مجاہدین میں تقسیم فرمایا۔ (2) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل یا فرمان پر اعتراض کرنا یا اسے غلط قرار دینا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم کو ناقابل عمل قرار دینا منافقوں کا شیوہ ہے، مومن سے ایسی حرکت کا صدور ممکن نہیں۔ (3) اس واقعہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلم و عفو، اور صبر و برداشت کی ایک اعلیٰ مثال ہے کہ ایسی گستاخی کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سزا نہیں دی۔ (4) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب اس شخص کو منافق قرار دے کر قتل کرنے کی اجازت طلب کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تردید نہیں فرمائی۔ گویا اس شخص کے منافق ہونے کی تصدیق فرمائی، تاہم حکمت کی بنا پر اسے سزائے موت دینے سے احتراز فرمایا۔ (5) اس شخص کی حرکت میں ارشاد نبوی کی حجت کا انکار پایا جاتا ہے، بعد میں خوارج نے بھی بہت سی احادیث کا انکار کیا کیونکہ ان کے خیال میں وہ قرآن کے اس مزعومہ مفہوم کے خلاف تھیں جو ان کے خیال میں قرآن کا صحیح مطلب تھا۔ لیکن اہل سنت کی نظر میں قرآن مجید کی آیات کا وہی مطلب درست ہوتا ہے جس کی تائید صحیح احادیث سے ہو۔