Book - حدیث 1713

كِتَاب الصِّيَامِ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِيَامِ دَاوُدَؑ صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا غَيْلَانُ بْنُ جَرِيرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيِّ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ يَوْمَيْنِ وَيُفْطِرُ يَوْمًا قَالَ وَيُطِيقُ ذَلِكَ أَحَدٌ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا قَالَ ذَلِكَ صَوْمُ دَاوُدَ قَالَ كَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمَيْنِ قَالَ وَدِدْتُ أَنِّي طُوِّقْتُ ذَلِكَ

ترجمہ Book - حدیث 1713

کتاب: روزوں کی اہمیت وفضیلت باب: حضرت داؤدؑ کے روزوں کا بیان ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے ، عمر ؓ نے فرمایا: اے اللہ کے رسول! جو شخص دو دن روزے رکھے اور ایک دن چھوڑ دے تو اس کا یہ معمول کیسا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا کوئی شخص اس کی طاقت رکھتا ہے؟ ‘‘ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! جو شخص ایک دن روزہ رکھے اور ایک دن چھوڑے اس کا یہ معمول کیسا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ داؤد  کا روزہ ہے۔‘‘ انہوں نے کہا: جو شخص ایک دن روزہ رکھے اور دو دن چھوڑے اس کا یہ معمول کیسا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میرا جی چاہتا ہے کہ میں یہ معمول اختیار کر سکوں ۔‘‘
تشریح : 1۔دو روزے رکھ کر ایک دن روزہ چھو ڑنا اللہ کے نبی ﷺ نے پسند نہیں فرما یا کیو نکہ نبی ﷺ نے محسوس فر مایا کے عام انسا ن کے لئے یہ معمول اختیار کر نا مشکل ہے سوائے اس کے کہ کو ئی شخص غلو کا رستہ اختیا ر کر ے جو منا سب نہیں 2 حدیث میں مذ کو ر با قی دو نو ں طریقے اللہ کے نبی ﷺ نے پسند فرمائے لہذا وہ جا ئز ہے 3 تیسری صؤرت کے با رے نبی کریم ﷺ نے خواہش ظ ا ہر فر مائی کہ مجھے اس کی طا قت ملے اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے لئے دوسری بہت سی مصروفیا ت کی وجہ سے یہ معمول اختیار کر نا مشکل تھا اس لئے نفلی عبادات میں انسا ن کو وہ معمول اختیار کر نا چا ہیے جس سے اس کے دوسرے فرائض کی ادائیگی میں خلل پڑنے کا اندیشہ نہ ہو ۔ 1۔دو روزے رکھ کر ایک دن روزہ چھو ڑنا اللہ کے نبی ﷺ نے پسند نہیں فرما یا کیو نکہ نبی ﷺ نے محسوس فر مایا کے عام انسا ن کے لئے یہ معمول اختیار کر نا مشکل ہے سوائے اس کے کہ کو ئی شخص غلو کا رستہ اختیا ر کر ے جو منا سب نہیں 2 حدیث میں مذ کو ر با قی دو نو ں طریقے اللہ کے نبی ﷺ نے پسند فرمائے لہذا وہ جا ئز ہے 3 تیسری صؤرت کے با رے نبی کریم ﷺ نے خواہش ظ ا ہر فر مائی کہ مجھے اس کی طا قت ملے اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے لئے دوسری بہت سی مصروفیا ت کی وجہ سے یہ معمول اختیار کر نا مشکل تھا اس لئے نفلی عبادات میں انسا ن کو وہ معمول اختیار کر نا چا ہیے جس سے اس کے دوسرے فرائض کی ادائیگی میں خلل پڑنے کا اندیشہ نہ ہو ۔