Book - حدیث 1705

كِتَاب الصِّيَامِ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِيَامِ الدَّهْرِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ وَأَبُو دَاوُدَ قَالُوا حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صَامَ الْأَبَدَ فَلَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ

ترجمہ Book - حدیث 1705

کتاب: روزوں کی اہمیت وفضیلت باب: ہمیشہ روزے رکھنے کا بیان عبداللہ بن شخیر ؓ سے روایت ہے نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے ہمیشہ روزے رکھے، اس نے نہ روزہ رکھا، نہ افطار کیا۔‘‘
تشریح : 1۔عبا دت میں شرعی حد سے تجا وز کر نا منع ہے 2 ہمیشہ روزہ رکھنا منع ہے 3 نہ روزہ رکھا نہ افطار کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ نی اسے روزہ رکھنے کا ثواب ملا نہ روزہ چھوڑنے کا آرام نصیب ہو ا گو یا نہ آ خروی نہ رو حا نی فا ئدہ حا صل ہو ا اور نہ دنیوی اور نہ جسمانی فائدہ حاصل ہو ا بلکہ نبی اکر م ﷺ کے حکم کی خلاف ورزی کر نے سے وہ صورت بن سکتی ہے کہ نیکی بر با د گنا لازم 4 بعض علما ء نے فر ما یا ہے کہ اگر کو ئی شخص عید ین اور ایا م تشر یق کے روزے نہ رکھے با قی گیارہ مہینے پچیس دن روزے رکھتا ہے تو یہ شخص ہمیشہ روزے رکھنے والا شمار ہو گا کیو نکہ اس نے سا ل میں پا نچ دن روزے نہیں رکھے لیکن غور کیا جا ئے تو اس عمل سے اس ممانعت کا مقصد ہی فو ت ہو جا تا ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیشہ روزے رکھنے شروع کیے تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں ان سے منع فر ما دیا ان کی با ر با ر کی درخوا ست پر زیا دہ سے زیا دہ جو اجا زت دی وہ داودرحمۃ اللہ علیہ والے روزے کی تھی یعنی ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن نہ رکھنا جب حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فر ما یا میں اس سے افضل عمل کی طا قت رکھتا ہوں یعنی اس سے زیا دہ روزے رکھ سکتا ہوں تو نبی اکرمﷺ نے فر ما یاتھا (لاافضل من ذلك)’’اس سے کو ئی افضل نہیں - (صحیح البخاری الصوم باب صوم الدھر حدیث 1967)اس سے معلو م ہو تا ہے کہ سا ل میں گیا رہ مہینے پچیس دن روزے رکھنے والے کو بھی اتنا ثواب نہیں مل سکتا جتنا صوم داود رحمۃ اللہ علیہ رکھنے والے کو ملتا ہے لہذا اگر عید ین اور ایا م تشریق کو چھوڑ کر سارا سال روزے رکھنے جا ئز بھی ما ن لیا جا ئے تو کم محنت کے سا تھ زیادہ ثوا ب حا صل کر نا بہتر ہے نہ کہ زیا دہ محنت کر کے کم ثواب حا صل کر نا ۔ 1۔عبا دت میں شرعی حد سے تجا وز کر نا منع ہے 2 ہمیشہ روزہ رکھنا منع ہے 3 نہ روزہ رکھا نہ افطار کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ نی اسے روزہ رکھنے کا ثواب ملا نہ روزہ چھوڑنے کا آرام نصیب ہو ا گو یا نہ آ خروی نہ رو حا نی فا ئدہ حا صل ہو ا اور نہ دنیوی اور نہ جسمانی فائدہ حاصل ہو ا بلکہ نبی اکر م ﷺ کے حکم کی خلاف ورزی کر نے سے وہ صورت بن سکتی ہے کہ نیکی بر با د گنا لازم 4 بعض علما ء نے فر ما یا ہے کہ اگر کو ئی شخص عید ین اور ایا م تشر یق کے روزے نہ رکھے با قی گیارہ مہینے پچیس دن روزے رکھتا ہے تو یہ شخص ہمیشہ روزے رکھنے والا شمار ہو گا کیو نکہ اس نے سا ل میں پا نچ دن روزے نہیں رکھے لیکن غور کیا جا ئے تو اس عمل سے اس ممانعت کا مقصد ہی فو ت ہو جا تا ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیشہ روزے رکھنے شروع کیے تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں ان سے منع فر ما دیا ان کی با ر با ر کی درخوا ست پر زیا دہ سے زیا دہ جو اجا زت دی وہ داودرحمۃ اللہ علیہ والے روزے کی تھی یعنی ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن نہ رکھنا جب حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فر ما یا میں اس سے افضل عمل کی طا قت رکھتا ہوں یعنی اس سے زیا دہ روزے رکھ سکتا ہوں تو نبی اکرمﷺ نے فر ما یاتھا (لاافضل من ذلك)’’اس سے کو ئی افضل نہیں - (صحیح البخاری الصوم باب صوم الدھر حدیث 1967)اس سے معلو م ہو تا ہے کہ سا ل میں گیا رہ مہینے پچیس دن روزے رکھنے والے کو بھی اتنا ثواب نہیں مل سکتا جتنا صوم داود رحمۃ اللہ علیہ رکھنے والے کو ملتا ہے لہذا اگر عید ین اور ایا م تشریق کو چھوڑ کر سارا سال روزے رکھنے جا ئز بھی ما ن لیا جا ئے تو کم محنت کے سا تھ زیادہ ثوا ب حا صل کر نا بہتر ہے نہ کہ زیا دہ محنت کر کے کم ثواب حا صل کر نا ۔