Book - حدیث 169

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فِي ذِكْرِ الْخَوَارِجِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، هَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ فِي الْحَرُورِيَّةِ شَيْئًا؟ فَقَالَ: سَمِعْتُهُ يَذْكُرُ «قَوْمًا يَتَعَبَّدُونَ، يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ، وَصَوْمَهُ مَعَ صَوْمِهِمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، أَخَذَ سَهْمَهُ فَنَظَرَ فِي نَصْلِهِ، فَلَمْ يَرَ شَيْئًا، فَنَظَرَ فِي رِصَافِهِ فَلَمْ يَرَ شَيْئًا، فَنَظَرَ فِي قِدْحِهِ فَلَمْ يَرَ شَيْئًا، فَنَظَرَ فِي الْقُذَذِ فَتَمَارَى، هَلْ يَرَى شَيْئًا أَمْ لَا»

ترجمہ Book - حدیث 169

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: خوارج کا بیان حضرت ابو سلمہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے کہا، کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے حروریہ کے بارے میں کوئی ارشاد سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا: میں نے آپ ﷺ کو ایسی جماعت کا ذکر کرتے سنا ہے جو بہت عبادت کریں گے( حتٰی کہ ) ‘‘ تم ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو اور ان کے روزوں کے مقابلے میں اپنے روزوں کو معمولی سمجھو گے۔( لیکن) وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے آر پار ہوجاتا ہے۔ تیر انداز تیر کو پکڑ کر اس کا پھل دیکھتا ہے، اسے (شکار ہونے والے جانور کا) کچھ بھی( پھل سے لگا ہوا) نظر نہیں آتا، پٹھے کو دیکھتا ہے، تو کچھ نظر نہیں آتا، تیر کی لکڑی کو دیکھتا ہے تو کچھ نظر نہیں آتا، پھر تیر کے پروں کو دیکھتا ہے تو شک ہوتا ہے کہ( جانور کے خون وغیرہ کا) کچھ( اثر ) نظر آ رہا ہے یا نہیں؟’’۔
تشریح : (1) خوارج، نماز روزہ وغیرہ نیک اعمال میں بہت محنت کرتے تھے حتی کہ صحابہ بھی دیکھیں تو تعجب کریں۔ لیکن عقیدے کی خرابی کے ساتھ نیک عمل میں جتنی بھی محنت کی جائے، کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ (2) اس حدیث میں تیر کے مختلف حصوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ نصل (پھل) تیر کے اس حصے کو کہتے ہیں جو لوہے کا بنا ہوتا ہے اور تیز دھار ہونے کی وجہ سے زخمی کرتا ہے۔ رصاف وہ پٹھے جو تیر میں وہاں ہوتے ہیں جہاں لوہے کا پھل لکڑی سے ملتا ہے۔ قدح: تیر کی وہ لمبی لکڑی جس کے سرے پر نصل لگایا جاتا ہے۔ قذذ: اُن پروں کو کہتے ہیں جو تیر کے پچھلے حصے میں ہوتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ تیر کے کسی حصے میں شکار شدہ جانور کا خون یا گوشت کا ٹکڑا تک نہیں لگا بلکہ تیر اسے لگ کر اتنی تیزی سے پار ہو گیا کہ بالکل صاف نکل گیا۔ اسی طرح یہ لوگ اسلام میں داخل ہوئے اور سیدھے باہر نکل گئے۔ اسلام کی دینی اور اخلاقی تعلیمات کا کچھ اثر قبول نہیں کیا۔ (3) اگرچہ خوارج کی گمراہی واضح ہے اور صحیح اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں، اسی لیے محدثین کا ایک گروہ ان کے کافر ہونے کا قائل ہے، تاہم علماء کی اکثریت نے اس کے باوجود انہیں مرتد یا غیر مسلم قرار نہیں دیا بلکہ گمراہ اور باغی ہی فرمایا ہے۔ (1) خوارج، نماز روزہ وغیرہ نیک اعمال میں بہت محنت کرتے تھے حتی کہ صحابہ بھی دیکھیں تو تعجب کریں۔ لیکن عقیدے کی خرابی کے ساتھ نیک عمل میں جتنی بھی محنت کی جائے، کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ (2) اس حدیث میں تیر کے مختلف حصوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ نصل (پھل) تیر کے اس حصے کو کہتے ہیں جو لوہے کا بنا ہوتا ہے اور تیز دھار ہونے کی وجہ سے زخمی کرتا ہے۔ رصاف وہ پٹھے جو تیر میں وہاں ہوتے ہیں جہاں لوہے کا پھل لکڑی سے ملتا ہے۔ قدح: تیر کی وہ لمبی لکڑی جس کے سرے پر نصل لگایا جاتا ہے۔ قذذ: اُن پروں کو کہتے ہیں جو تیر کے پچھلے حصے میں ہوتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ تیر کے کسی حصے میں شکار شدہ جانور کا خون یا گوشت کا ٹکڑا تک نہیں لگا بلکہ تیر اسے لگ کر اتنی تیزی سے پار ہو گیا کہ بالکل صاف نکل گیا۔ اسی طرح یہ لوگ اسلام میں داخل ہوئے اور سیدھے باہر نکل گئے۔ اسلام کی دینی اور اخلاقی تعلیمات کا کچھ اثر قبول نہیں کیا۔ (3) اگرچہ خوارج کی گمراہی واضح ہے اور صحیح اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں، اسی لیے محدثین کا ایک گروہ ان کے کافر ہونے کا قائل ہے، تاہم علماء کی اکثریت نے اس کے باوجود انہیں مرتد یا غیر مسلم قرار نہیں دیا بلکہ گمراہ اور باغی ہی فرمایا ہے۔