Book - حدیث 1682

كِتَاب الصِّيَامِ بَابُ مَا جَاءَ فِي الْحِجَامَةِ لِلصَّائِمِ صحيح - بلفظ ".. واحتجم وهو محرم " حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ احْتَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ صَائِمٌ مُحْرِمٌ

ترجمہ Book - حدیث 1682

کتاب: روزوں کی اہمیت وفضیلت باب: روزے دار کا سینگی لگوانا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے روزہ رکھ کر احرام کی حالت میں سینگی لگوائی۔
تشریح : 1۔علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔یہ حدیث ان الفاظ سے صحیح ہے کہ روزے کی حالت میں سینگی لگوائی اور احرام کی حالت میں سینگی لگوائی۔ (یعنی حرام اور روزے کے واقعات الگ الگ ہیں۔ایسا نہیں کہ بیک وقت احرام بھی ہو اور روزہ بھی اور اس حالت میں سینگی لگوائی ہو دیکھئے۔(ارواء الغلیل رقم 932)2۔سینگی یا پچھنے لگانا ایک طریق علاج ہے۔ جس میں ایک خاص طریقے سے جسم سے خون نکالا جاتا ہے۔مریض کےجسم پر کسی تیز دھار آلے سے زخم لگا کر ایک دوسری چیز کے زریعے سے خون چوسا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص روزہ رکھ کر کسی کو سینگی لگائے۔یا کوئی روزہ دار سینگی لگوائے تو کیا ان کاروزہ ٹوٹ جائے گا یا قائم رہے گا؟اس بارے میں علمائے کرام میں دو مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔جو لوگ روزہ ٹوٹنے کے قائل ہیں ان کی دلیل یہی حدیث ہے۔جو حضرت ثوبان حضرت شداد بن اوس۔حضرت رافع بن خدیج اور حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی موقف ہے اس کے برعکس حضرت عبدا للہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور خود حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے روزہ رکھ کر سینگی لگوائی اور ان کے نزدیک سینگی لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا گیا۔ کیا آپ لوگ (عہد نبوی میں)روزہ دار کے لئے سینگی لگونا نا پسند کرتے تھے؟انھوں نے فرمایا نہیں صرف کمزوری کی وجہ سے مکروہ سمجھا جاتا تھا (صحیح البخاری الصوم باب الحجامۃ والقئ للصائم حدیث 1940) حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی روزے کی حالت میں سینگی لگوالیا کرتے تھے۔(موطا امام مالک الصیام باب ماجاء فی حجامۃ الصائم حدیث 275۔276)امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا روزے دار کو سینگی لگوانا صرف ااس لئے مکروہ کہ کمزوری کا اندیشہ ہوتا ہے۔ (موطا امام مالک حوالہ مذکورہ بالا) شیخ عبد القادر ارنا ووط جامع الاصول کے حاشیہ میں لکھتے ہیں۔ سینگی سے روزہ ٹوٹنے کا حکم منسوخ ہے۔ (جامع الاصول :6/295۔حدیث 4416۔4417)امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ پر بحث کرکے آخر میں فرمایا: حدیثوں میں تطبیق اس طرح دی جاسکتی ہے۔کہ سینگی لگوانا اس شخص کے لئے مکروہ ہے جسے کمزوری لاحق ہوتی ہو اور اگر کمزوری اس حد تک پہنچتی ہو کہ اس کی وجہ سے افطار کرنا پڑے تو اس صورت میں سینگی لگوانا زیادہ مکروہ ہے۔اور جس شخص کو کمزوری نہیں ہوتی۔اس کے حق میں (سینگی لگوانا) مکروہ نہیں لہذا(افطر الحاجم والمحجوم) سینگی لگانے اور لگوانے والے نے روزہ کھول دیا۔ کو مجازی معنی میں لینا پڑے گا۔کیونکہ مذکورہ بالا دلائل اسے حقیقی معنی پر محمول کرنے سے مانع ہیں۔ (نیل الاوطار 4/228 ابواب ما یبطل الصوم وما یکرہ وما یمستحب وباب ماجاء فی الحجامۃ :4/228)راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ اس قسم کے مسائل میں احتیاط کرنا مناسب ہے۔جیسے حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت فرماتے ہیں۔ حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ روزے کی حالت میں سینگی لگوالیا کرتے تھے۔پھر انھوں نے یہ عمل ترک کردیا۔چنانچہ وہ رات کو سینگی لگواتے تھے۔اورحضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ر ات کو سینگی لگوائی (صحیح البخاری الصوم باب الحجامۃ والقئ للصائم قبل حدیث 1938) 1۔علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔یہ حدیث ان الفاظ سے صحیح ہے کہ روزے کی حالت میں سینگی لگوائی اور احرام کی حالت میں سینگی لگوائی۔ (یعنی حرام اور روزے کے واقعات الگ الگ ہیں۔ایسا نہیں کہ بیک وقت احرام بھی ہو اور روزہ بھی اور اس حالت میں سینگی لگوائی ہو دیکھئے۔(ارواء الغلیل رقم 932)2۔سینگی یا پچھنے لگانا ایک طریق علاج ہے۔ جس میں ایک خاص طریقے سے جسم سے خون نکالا جاتا ہے۔مریض کےجسم پر کسی تیز دھار آلے سے زخم لگا کر ایک دوسری چیز کے زریعے سے خون چوسا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص روزہ رکھ کر کسی کو سینگی لگائے۔یا کوئی روزہ دار سینگی لگوائے تو کیا ان کاروزہ ٹوٹ جائے گا یا قائم رہے گا؟اس بارے میں علمائے کرام میں دو مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔جو لوگ روزہ ٹوٹنے کے قائل ہیں ان کی دلیل یہی حدیث ہے۔جو حضرت ثوبان حضرت شداد بن اوس۔حضرت رافع بن خدیج اور حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی موقف ہے اس کے برعکس حضرت عبدا للہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور خود حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے روزہ رکھ کر سینگی لگوائی اور ان کے نزدیک سینگی لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا گیا۔ کیا آپ لوگ (عہد نبوی میں)روزہ دار کے لئے سینگی لگونا نا پسند کرتے تھے؟انھوں نے فرمایا نہیں صرف کمزوری کی وجہ سے مکروہ سمجھا جاتا تھا (صحیح البخاری الصوم باب الحجامۃ والقئ للصائم حدیث 1940) حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی روزے کی حالت میں سینگی لگوالیا کرتے تھے۔(موطا امام مالک الصیام باب ماجاء فی حجامۃ الصائم حدیث 275۔276)امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا روزے دار کو سینگی لگوانا صرف ااس لئے مکروہ کہ کمزوری کا اندیشہ ہوتا ہے۔ (موطا امام مالک حوالہ مذکورہ بالا) شیخ عبد القادر ارنا ووط جامع الاصول کے حاشیہ میں لکھتے ہیں۔ سینگی سے روزہ ٹوٹنے کا حکم منسوخ ہے۔ (جامع الاصول :6/295۔حدیث 4416۔4417)امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ پر بحث کرکے آخر میں فرمایا: حدیثوں میں تطبیق اس طرح دی جاسکتی ہے۔کہ سینگی لگوانا اس شخص کے لئے مکروہ ہے جسے کمزوری لاحق ہوتی ہو اور اگر کمزوری اس حد تک پہنچتی ہو کہ اس کی وجہ سے افطار کرنا پڑے تو اس صورت میں سینگی لگوانا زیادہ مکروہ ہے۔اور جس شخص کو کمزوری نہیں ہوتی۔اس کے حق میں (سینگی لگوانا) مکروہ نہیں لہذا(افطر الحاجم والمحجوم) سینگی لگانے اور لگوانے والے نے روزہ کھول دیا۔ کو مجازی معنی میں لینا پڑے گا۔کیونکہ مذکورہ بالا دلائل اسے حقیقی معنی پر محمول کرنے سے مانع ہیں۔ (نیل الاوطار 4/228 ابواب ما یبطل الصوم وما یکرہ وما یمستحب وباب ماجاء فی الحجامۃ :4/228)راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ اس قسم کے مسائل میں احتیاط کرنا مناسب ہے۔جیسے حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت فرماتے ہیں۔ حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ روزے کی حالت میں سینگی لگوالیا کرتے تھے۔پھر انھوں نے یہ عمل ترک کردیا۔چنانچہ وہ رات کو سینگی لگواتے تھے۔اورحضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ر ات کو سینگی لگوائی (صحیح البخاری الصوم باب الحجامۃ والقئ للصائم قبل حدیث 1938)