Book - حدیث 168

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فِي ذِكْرِ الْخَوَارِجِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ، يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ النَّاسِ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَمَنْ لَقِيَهُمْ فَلْيَقْتُلْهُمْ، فَإِنَّ قَتْلَهُمْ أَجْرٌ عِنْدَ اللَّهِ لِمَنْ قَتَلَهُمْ»

ترجمہ Book - حدیث 168

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: خوارج کا بیان حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:‘‘ آخری زمانے میں کچھ لوگ ظاہر ہوں گے، کم عمر( نوجوان)، کم عقل، (بظاہر) بڑی اچھی باتیں کریں گے، قرآن پڑھیں گے ، لیکن وہ ان کے گلوں سے آگے نہیں بڑھے گا۔ وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے۔ جس طرح تیر(نشانہ بننے والے) شکار سے گزر جاتا ہے۔ جو شخص انہیں ملے، اسے چاہے کہ انہیں قتل کرے، جو کوئی انہیں قتل کرے گا، اسے اللہ اللہ سے ان کے قتل کرنے کا ثواب ملے گا۔’’
تشریح : (1) آخری زمانے کا مطلب بعض علماء نے خلافت راشدہ کا آخری زمانہ مراد لیا ہے کیونکہ یہ خارجی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ظاہر ہوئے تھے، ممکن ہے قیامت کے قریب بھی ایسے لوگ سامنے آئیں جو انہی گمراہیوں کا شکار ہوں جن میں خارجی مبتلا تھے۔ واللہ اعلم. (2) بدعت، خواہ عقیدہ میں ہو یا عمل میں، کم عقلی کی دلیل ہے۔ گویا بدعت کو ہی شخص ایجاد یا اختیار کرتا ہے جو دین کی سمجھ نہیں رکھتا یا دین کو ناقص سمجھتا ہے۔ (3) گمراہ فرقے اپنی گمراہی کی تائید میں ایسی چیزیں پیش کرتے ہیں، جن سے کم علم آدمی دھوکا کھا جاتا ہے اور ان باتوں کو پختہ دلائل سمجھ بیٹھتا ہے، لیکن اگر ان کے مزعومہ دلائل کو قرآن و حدیث کی روشنی میں پرکھا جائے تو ان کی غلطی واضح ہو جاتی ہے۔ (4) قرآن کے گلے سے آگے نہ گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ زبان سے قرآن پڑھیں گے، لیکن اس کا اثر ان کے دلوں پر نہ ہو گا یا ان کے دل قرآن کی صحیح سمجھ سے محروم ہوں گے۔ (5) بدعتی اپنے خود ساختہ اقوال و افعال ہی کو اسلام سمجھتا ہے، اس لیے وہ اصلی اسلام سے محروم ہو جاتا ہے۔ جس طرح وہ تیر جو شکار کیے جانے والے جانور میں سے آر پار ہو جائےم کہنے کو تو اس کا تعلق بھی اس جانور سے قائم ہوا ہے، لیکن حقیقت میں یہ تعلق کالعدم ہے۔ اسی طرح خوارج یا دوسرے اہل بدعت کا تعلق بظاہر تو اسلام سے قائم ہوتا ہے کیونکہ وہ شہادتین کا اقرار کرتے ہیں اور مسلمانوں والے اعمال کرتے ہیں ، لیکن بدعت کی وجہ سے ان کی نیکیاں غیر مقبول اور کالعدم ہو جاتی ہیں، اس طرح اسلام سے ان کا تعلق قائم نہیں رہ پاتا۔ (6) اہل بدعت کو پہلے سمجھانا چاہیے اور ان کی غلطیاں واضح کرنی چاہئیں، پھر بھی اگر وہ باز نہ آئیں اور عام مسلمانوں کے لیے گمراہی کا باعث بننے لگیں تو اسلامی حکومت کو ان سے باغیون کا سا سلوک روا رکھ کے، بزور قوت ان کے فتنہ کا خاتمہ کرنا چاہیے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی پہلے خوارج جو سمجھانے کے لیے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا جس کے نتیجے میں ان میں سے بہت سے افراد کی سمجھ میں بات آگئی اور انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت قبول کر لی۔ جو بغاوت پر مصر رہے ان سے جنگ کی گئی۔ (البداية والنهاية: 4/292) (2) فتنے کا خاتمہ کرنے کے لیے اسلامی حکومت سے تعاون نیک کام ہے، جس پر ثواب ملے گا۔ (1) آخری زمانے کا مطلب بعض علماء نے خلافت راشدہ کا آخری زمانہ مراد لیا ہے کیونکہ یہ خارجی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ظاہر ہوئے تھے، ممکن ہے قیامت کے قریب بھی ایسے لوگ سامنے آئیں جو انہی گمراہیوں کا شکار ہوں جن میں خارجی مبتلا تھے۔ واللہ اعلم. (2) بدعت، خواہ عقیدہ میں ہو یا عمل میں، کم عقلی کی دلیل ہے۔ گویا بدعت کو ہی شخص ایجاد یا اختیار کرتا ہے جو دین کی سمجھ نہیں رکھتا یا دین کو ناقص سمجھتا ہے۔ (3) گمراہ فرقے اپنی گمراہی کی تائید میں ایسی چیزیں پیش کرتے ہیں، جن سے کم علم آدمی دھوکا کھا جاتا ہے اور ان باتوں کو پختہ دلائل سمجھ بیٹھتا ہے، لیکن اگر ان کے مزعومہ دلائل کو قرآن و حدیث کی روشنی میں پرکھا جائے تو ان کی غلطی واضح ہو جاتی ہے۔ (4) قرآن کے گلے سے آگے نہ گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ زبان سے قرآن پڑھیں گے، لیکن اس کا اثر ان کے دلوں پر نہ ہو گا یا ان کے دل قرآن کی صحیح سمجھ سے محروم ہوں گے۔ (5) بدعتی اپنے خود ساختہ اقوال و افعال ہی کو اسلام سمجھتا ہے، اس لیے وہ اصلی اسلام سے محروم ہو جاتا ہے۔ جس طرح وہ تیر جو شکار کیے جانے والے جانور میں سے آر پار ہو جائےم کہنے کو تو اس کا تعلق بھی اس جانور سے قائم ہوا ہے، لیکن حقیقت میں یہ تعلق کالعدم ہے۔ اسی طرح خوارج یا دوسرے اہل بدعت کا تعلق بظاہر تو اسلام سے قائم ہوتا ہے کیونکہ وہ شہادتین کا اقرار کرتے ہیں اور مسلمانوں والے اعمال کرتے ہیں ، لیکن بدعت کی وجہ سے ان کی نیکیاں غیر مقبول اور کالعدم ہو جاتی ہیں، اس طرح اسلام سے ان کا تعلق قائم نہیں رہ پاتا۔ (6) اہل بدعت کو پہلے سمجھانا چاہیے اور ان کی غلطیاں واضح کرنی چاہئیں، پھر بھی اگر وہ باز نہ آئیں اور عام مسلمانوں کے لیے گمراہی کا باعث بننے لگیں تو اسلامی حکومت کو ان سے باغیون کا سا سلوک روا رکھ کے، بزور قوت ان کے فتنہ کا خاتمہ کرنا چاہیے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی پہلے خوارج جو سمجھانے کے لیے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا جس کے نتیجے میں ان میں سے بہت سے افراد کی سمجھ میں بات آگئی اور انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت قبول کر لی۔ جو بغاوت پر مصر رہے ان سے جنگ کی گئی۔ (البداية والنهاية: 4/292) (2) فتنے کا خاتمہ کرنے کے لیے اسلامی حکومت سے تعاون نیک کام ہے، جس پر ثواب ملے گا۔