كِتَاب الصِّيَامِ بَابُ مَا جَاءَ فِيمَنْ أَفْطَرَ نَاسِيًا صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ أَفْطَرْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمِ غَيْمٍ ثُمَّ طَلَعَتْ الشَّمْسُ قُلْتُ لِهِشَامٍ أُمِرُوا بِالْقَضَاءِ قَالَ فَلَا بُدَّ مِنْ ذَلِكَ
کتاب: روزوں کی اہمیت وفضیلت
باب: جس نے بھول کر روزہ کھول دیا (اس کے لئے کیا حکم ہے)
اسماء بنت ابو بکر ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک ابر آلود دن میں ہم نے روزہ کھول دیا( یہ سمجھے کہ سورج غروب ہو چکا ہے) لیکن پھر (بادل ہٹ گئے اور) سورج نکل آیا۔ (ابواسامہ کہتے ہیں:) میں نے ہشام بن عروہ سے کہا: کیا انہیں (روزے کی) قضا کا حکم دیا گیا تھا؟ انہوں نے کہا: یہ تو ضروری تھا۔
تشریح :
حدیث میں مذکورہ صورت بھول کر کھانے پینے سے مختلف ہے۔کیونکہ انھوں نے بھول کر نہیں کھایا پیا بلکہ ارادے سے اپنے خیال میں روزہ کھولا تھا۔ اگرچہ غلط فہمی کی بنا پر وقت سے پہلے کھولدیاتھا۔اس غلط فہمی کی بنا پر وہ گناہ گار تو نہیں ہوئے لیکن روزہ یقیناً ناقص ہوگیا۔ایسے روزے کی قضا کی بابت علماء میں اختلاف ہے۔تاہم جمہور علماء کے نزدیک ایسی صورت میں افطار کیے ہوئے روزے کی قضا واجب ہے۔(تفصیل کےلئے دیکھئے۔فتح الباری 4/255)
حدیث میں مذکورہ صورت بھول کر کھانے پینے سے مختلف ہے۔کیونکہ انھوں نے بھول کر نہیں کھایا پیا بلکہ ارادے سے اپنے خیال میں روزہ کھولا تھا۔ اگرچہ غلط فہمی کی بنا پر وقت سے پہلے کھولدیاتھا۔اس غلط فہمی کی بنا پر وہ گناہ گار تو نہیں ہوئے لیکن روزہ یقیناً ناقص ہوگیا۔ایسے روزے کی قضا کی بابت علماء میں اختلاف ہے۔تاہم جمہور علماء کے نزدیک ایسی صورت میں افطار کیے ہوئے روزے کی قضا واجب ہے۔(تفصیل کےلئے دیکھئے۔فتح الباری 4/255)