كِتَاب الصِّيَامِ بَابُ مَا جَاءَ فِي قَضَاءِ رَمَضَانَ صحیح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ إِنْ كَانَ لَيَكُونُ عَلَيَّ الصِّيَامُ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ فَمَا أَقْضِيهِ حَتَّى يَجِيءَ شَعْبَانُ
کتاب: روزوں کی اہمیت وفضیلت
باب: رمضان کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا
ام المومنین عائشہ ؓا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میرے ذمے رمضان کے روزے ہوتے تھے تو میں ان کی قضا نہیں دیتی تھی حتی کہ شعبان آجاتا۔
تشریح :
1۔رمضان میں عذرشرعی کی بنا پر جو روزے چھوٹ جایئں ان کی قضا سال بھر میں کسی وقت بھی دی جاسکتی ہے۔ضروری نہیں کہ وہ روزے شوال ہی میں رکھے جایئں۔2۔ام المومنین چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا میں اس لئے تاخیر فرماتی تھیں۔کہ ایسا نہ ہو کہ رسول اللہ ﷺ کو مقاربت کی خواہش ہو۔اور وہ روزے کی وجہ سے نبی کریمﷺ کی خدمت سے محروم رہ جایئں۔ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا شعبان میں اس لئے روزے رکھ لیتی تھیں۔کہ نبی کریمﷺ اس مہینے میں نفلی روزے کثرت سے رکھتے تھے۔چنانچہ تاخیر کی وجہ باقی نہیں رہتی تھی۔جو دوسرے مہینوں مہینوں میں ہوتی تھی۔4۔عورت کو چاہیے کہ خاوند کو خوش رکھنے کےلئے ہر ممکن کوشش کرے۔بشرط یہ کہ شرعی طور پر ناجائز کام کا ارتکاب نہ کرنا پڑے۔
1۔رمضان میں عذرشرعی کی بنا پر جو روزے چھوٹ جایئں ان کی قضا سال بھر میں کسی وقت بھی دی جاسکتی ہے۔ضروری نہیں کہ وہ روزے شوال ہی میں رکھے جایئں۔2۔ام المومنین چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا میں اس لئے تاخیر فرماتی تھیں۔کہ ایسا نہ ہو کہ رسول اللہ ﷺ کو مقاربت کی خواہش ہو۔اور وہ روزے کی وجہ سے نبی کریمﷺ کی خدمت سے محروم رہ جایئں۔ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا شعبان میں اس لئے روزے رکھ لیتی تھیں۔کہ نبی کریمﷺ اس مہینے میں نفلی روزے کثرت سے رکھتے تھے۔چنانچہ تاخیر کی وجہ باقی نہیں رہتی تھی۔جو دوسرے مہینوں مہینوں میں ہوتی تھی۔4۔عورت کو چاہیے کہ خاوند کو خوش رکھنے کےلئے ہر ممکن کوشش کرے۔بشرط یہ کہ شرعی طور پر ناجائز کام کا ارتکاب نہ کرنا پڑے۔