Book - حدیث 1667

كِتَاب الصِّيَامِ بَابُ مَا جَاءَ فِي الْإِفْطَارِ لِلْحَامِلِ وَالْمُرْضِعِ حسن صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ أَبِي هِلَالٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَوَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ مِنْ بَنِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ قَالَ أَغَارَتْ عَلَيْنَا خَيْلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَغَدَّى فَقَالَ ادْنُ فَكُلْ قُلْتُ إِنِّي صَائِمٌ قَالَ اجْلِسْ أُحَدِّثْكَ عَنْ الصَّوْمِ أَوْ الصِّيَامِ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَضَعَ عَنْ الْمُسَافِرِ شَطْرَ الصَّلَاةِ وَعَنْ الْمُسَافِرِ وَالْحَامِلِ وَالْمُرْضِعِ الصَّوْمَ أَوْ الصِّيَامَ وَاللَّهِ لَقَدْ قَالَهُمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِلْتَاهُمَا أَوْ إِحْدَاهُمَا فَيَا لَهْفَ نَفْسِي فَهَلَّا كُنْتُ طَعِمْتُ مِنْ طَعَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ Book - حدیث 1667

کتاب: روزوں کی اہمیت وفضیلت باب: حاملہ اور دودھ پلانے والی کا روزہ چھوڑنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے۔ یہ صحابی قبیلہ بنو عبدالاشہل کی ساخ بنو عبداللہ بن کعب سے ہیں۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے گھڑ سوار دستے نے ہمارے قبیلے پر حملہ کیا۔ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کھانا کھا رہے تھے تو آپ نے فرمایا: ’’آجاؤ، کھانا کھا لو۔‘‘ میں نے کہا: میرا روزہ ہے۔ فرمایا: ’’بیٹھ جاؤ! میں تمہیں روزے کی بات بتاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے مسافر کو آدھی نماز معاف کر دی ہے، اور مسافر، حاملہ اور دودھ پلانے والی کو روزہ یا روزے معاف کر دیے ہیں۔ ‘‘ اللہ کی قسم! نبی ﷺ نے یہ دونوں لفظ فرمائے یا ان میں سے ایک لفظ فرمایا۔ مجھے اپنے آپ پر افسوس ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے کھانے میں شریک نہ ہوا۔
تشریح : 1۔جس وقت یہ واقعہ پیش آیا۔اس وقت حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعجی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمان ہوچکے تھے۔جب ان کا قبیلہ ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا۔2۔مسافر کو آدھی نماز معاف ہون کا یہ مطلب ہے کہ جن نمازوں میں چار رکعت فرض ہیں۔ان میں دو رکعت فرض نماز ادا کی جائے۔فجر اور مغرب کی نماز سفر میں بھی پوری پڑھی جاتی ہے۔3۔روزے دار کو کھانے کی دعوت دی جائے۔ تو وہ اپنے روزے کا اظہار کرسکتا ہے۔یہ ریا میں شامل نہیں 4۔مسافر بچے کو دودھ پلانے والی اور حاملہ کے لئے رعایت ایک ہی سیاق میں بیان ہوئی ہے۔مگر تفصیل میں فرق ہے کہ مسافر کوروزہ معاف ہے۔مگر قضا ادا کرنا واجب ہے۔اور مرضعہ اور حاملہ کی بابت علماءکی چار آراء ہیں۔جن کی تفصیل درج زیل ہے۔ ایک رائے تو یہ ہے کہ ان کےلئے فدیہ ہی کافی ہے۔بعد میں قضا نہیں دوسری رائے یہ ہے کہ ان پر نہ قضا ہے نہ فدیہ یہ رائے حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔ جو انھوں نے المحلی (مسئلہ نمبر 770)میں بیان کی ہے۔تیسری رائے یہ ہے کہ فدیہ طعام کے علاوہ بعد میں وہ قضا بھی دیں چوتھی رائے یہ ہے کہ وہ مریض کے حکم میں ہیں۔وہ روزہ چھوڑدیں انھیں فدیہ دینے کی ضرورت نہیں۔اور بعد میں قضا دیں مولانا محمد علی جانباز رحمۃ اللہ علیہ نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔دیکھئے۔(انجاز الحاجۃ شرح ابن ماجہ 5/566 نیز سعودی علماء کی بھی یہی رائے ہے۔(دیکھئے فتاویٰ اسلامیہ (اُردو)2/203 ،مطبوعہ دارالسلام) 1۔جس وقت یہ واقعہ پیش آیا۔اس وقت حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعجی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمان ہوچکے تھے۔جب ان کا قبیلہ ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا۔2۔مسافر کو آدھی نماز معاف ہون کا یہ مطلب ہے کہ جن نمازوں میں چار رکعت فرض ہیں۔ان میں دو رکعت فرض نماز ادا کی جائے۔فجر اور مغرب کی نماز سفر میں بھی پوری پڑھی جاتی ہے۔3۔روزے دار کو کھانے کی دعوت دی جائے۔ تو وہ اپنے روزے کا اظہار کرسکتا ہے۔یہ ریا میں شامل نہیں 4۔مسافر بچے کو دودھ پلانے والی اور حاملہ کے لئے رعایت ایک ہی سیاق میں بیان ہوئی ہے۔مگر تفصیل میں فرق ہے کہ مسافر کوروزہ معاف ہے۔مگر قضا ادا کرنا واجب ہے۔اور مرضعہ اور حاملہ کی بابت علماءکی چار آراء ہیں۔جن کی تفصیل درج زیل ہے۔ ایک رائے تو یہ ہے کہ ان کےلئے فدیہ ہی کافی ہے۔بعد میں قضا نہیں دوسری رائے یہ ہے کہ ان پر نہ قضا ہے نہ فدیہ یہ رائے حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔ جو انھوں نے المحلی (مسئلہ نمبر 770)میں بیان کی ہے۔تیسری رائے یہ ہے کہ فدیہ طعام کے علاوہ بعد میں وہ قضا بھی دیں چوتھی رائے یہ ہے کہ وہ مریض کے حکم میں ہیں۔وہ روزہ چھوڑدیں انھیں فدیہ دینے کی ضرورت نہیں۔اور بعد میں قضا دیں مولانا محمد علی جانباز رحمۃ اللہ علیہ نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔دیکھئے۔(انجاز الحاجۃ شرح ابن ماجہ 5/566 نیز سعودی علماء کی بھی یہی رائے ہے۔(دیکھئے فتاویٰ اسلامیہ (اُردو)2/203 ،مطبوعہ دارالسلام)