Book - حدیث 1654

كِتَاب الصِّيَامِ بَابُ مَا جَاءَ فِي صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِيُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَأَيْتُمْ الْهِلَالَ فَصُومُوا وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ قَالَ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَصُومُ قَبْلَ الْهِلَالِ بِيَوْمٍ

ترجمہ Book - حدیث 1654

کتاب: روزوں کی اہمیت وفضیلت باب: چاند دیکھ کر روزے رکھنا شروع کر و اور چاند دیکھ کر روزے رکھنا ختم کرو عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم چاند دیکھو تو روزے رکھو،اور جب چاند دیکھو تو روزے چھوڑ دو۔ اگر تم پر بادل چھا جائے تو اس کا اندازہ کر لو۔‘‘ ابن عمر چاند سے ایک دن پہلے روزہ رکھتے تھے۔
تشریح : 1۔چاند نظر آنے پرقمری چاند مہینہ شروع ہوجاتا ہے۔رات اپنے بعد والے دن کے ساتھ گنی جاتی ہے۔2۔چاند دیکھ کر روزہ رکھنے کا مطلب رات ہی کو روزہ رکھنانہیں کیونکہ روزے کا وقت صبح صادق سے شروع ہوتا ہے۔3۔چاند دیکھ کر روزہ چھوڑنے کامطلب یہ ہے کہ شوال کا چاند نظر آجائے تو وہ رات شوال کی پہلی رات ہوگی۔رمضان کے احکام ختم ہوجایئں گے۔اگر سورج غروب ہونے سے پہلے چاند نظر آجائے۔جیسے بعض اوقات تیس کا مہینہ ہونے کی صورت میں ہوجاتا ہے۔ تو سورج غروب ہونے سے پہلے روزہ افطار نہ کیا جائے۔کیونکہ روزہ غروب آفتاب پر ختم ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔( ثُمَّ أَتِمُّوا۟ ٱلصِّيَامَ إِلَى ٱلَّيْلِ ۚ)(البقرۃ۔2:187) پھر رات تک روزہ پورا کرو 4۔بادل ہونے کی صورت میں اندازہ کرنے کا مطلب تیس روزے پورا کرنا ہے۔کیونکہ دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں۔(فان غم عليكم فاكملوا العدة ثلاثين) اگر بادل ہوجایئں تو تیس کی گنتی پوری کرلو (صحیح البخاری الصوم باب قول النبی اذا رایتم الھلال فصوموا واذا رایتموہ فافطروا حدیث 1907)5۔تیسواں روزہ رکھنے کو اندازہ اسی لئے کہا گیا ہے۔ کہ مذکورہ صورت میں چاند نہ ہونا یقینی نہیں لیکن چاند ہونے کایقین نہ ہونے کی وجہ سے رمضان کے باقی رہنے کا حکم لگایا گیا ہے۔اگر یقینی خبر سے چاند ہونا ثابت ہوجائے تو روزہ چھوڑ دیا جائے گا۔6۔حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رمضان سے پہلےایک روزہ رکھا۔ممکن ہے وہ ان کی عادت کے مطابق روزہ ہو جو اتفاقاً اسی روز واقع ہوگیا ہو۔دیکھئے(حدیث 1650۔فائدہ۔3)یا ممکن ہے انھوں نے نہی کو فضیلت کے معنی میں لیا ہو۔واللہ اعلم۔بہرحال صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول وعمل پر رسول اللہ ﷺ کے ارشاد مبارک کو ترجیح دیتے ہوئے یہ روزہ نہ رکھنا ہی بہتر ہے۔نیز شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس فعل کی بابت لکھتے ہیں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ عمل صرف ابن ماجہ میں ہے۔اور یہ اضافہ منکر ہے تفصیل کےلئے دیکھئے۔(ارواء الغلیل 4/10 رقم 903) 1۔چاند نظر آنے پرقمری چاند مہینہ شروع ہوجاتا ہے۔رات اپنے بعد والے دن کے ساتھ گنی جاتی ہے۔2۔چاند دیکھ کر روزہ رکھنے کا مطلب رات ہی کو روزہ رکھنانہیں کیونکہ روزے کا وقت صبح صادق سے شروع ہوتا ہے۔3۔چاند دیکھ کر روزہ چھوڑنے کامطلب یہ ہے کہ شوال کا چاند نظر آجائے تو وہ رات شوال کی پہلی رات ہوگی۔رمضان کے احکام ختم ہوجایئں گے۔اگر سورج غروب ہونے سے پہلے چاند نظر آجائے۔جیسے بعض اوقات تیس کا مہینہ ہونے کی صورت میں ہوجاتا ہے۔ تو سورج غروب ہونے سے پہلے روزہ افطار نہ کیا جائے۔کیونکہ روزہ غروب آفتاب پر ختم ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔( ثُمَّ أَتِمُّوا۟ ٱلصِّيَامَ إِلَى ٱلَّيْلِ ۚ)(البقرۃ۔2:187) پھر رات تک روزہ پورا کرو 4۔بادل ہونے کی صورت میں اندازہ کرنے کا مطلب تیس روزے پورا کرنا ہے۔کیونکہ دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں۔(فان غم عليكم فاكملوا العدة ثلاثين) اگر بادل ہوجایئں تو تیس کی گنتی پوری کرلو (صحیح البخاری الصوم باب قول النبی اذا رایتم الھلال فصوموا واذا رایتموہ فافطروا حدیث 1907)5۔تیسواں روزہ رکھنے کو اندازہ اسی لئے کہا گیا ہے۔ کہ مذکورہ صورت میں چاند نہ ہونا یقینی نہیں لیکن چاند ہونے کایقین نہ ہونے کی وجہ سے رمضان کے باقی رہنے کا حکم لگایا گیا ہے۔اگر یقینی خبر سے چاند ہونا ثابت ہوجائے تو روزہ چھوڑ دیا جائے گا۔6۔حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رمضان سے پہلےایک روزہ رکھا۔ممکن ہے وہ ان کی عادت کے مطابق روزہ ہو جو اتفاقاً اسی روز واقع ہوگیا ہو۔دیکھئے(حدیث 1650۔فائدہ۔3)یا ممکن ہے انھوں نے نہی کو فضیلت کے معنی میں لیا ہو۔واللہ اعلم۔بہرحال صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول وعمل پر رسول اللہ ﷺ کے ارشاد مبارک کو ترجیح دیتے ہوئے یہ روزہ نہ رکھنا ہی بہتر ہے۔نیز شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس فعل کی بابت لکھتے ہیں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ عمل صرف ابن ماجہ میں ہے۔اور یہ اضافہ منکر ہے تفصیل کےلئے دیکھئے۔(ارواء الغلیل 4/10 رقم 903)