كِتَاب الصِّيَامِ بَابُ مَا جَاءَ فِي الشَّهَادَةِ عَلَى رُؤْيَةِ الْهِلَالِ ضعیف حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَوْدِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ حَدَّثَنَا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَاءَ أَعْرَابِيُّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبْصَرْتُ الْهِلَالَ اللَّيْلَةَ فَقَالَ أَتَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ قَالَ نَعَمْ قَالَ قُمْ يَا بِلَالُ فَأَذِّنْ فِي النَّاسِ أَنْ يَصُومُوا غَدًا قَالَ أَبُو عَلِيٍّ هَكَذَا رِوَايَةُ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ وَالْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ وَرَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ فَلَمْ يَذْكُرْ ابْنَ عَبَّاسٍ وَقَالَ فَنَادَى أَنْ يَقُومُوا وَأَنْ يَصُومُوا
کتاب: روزوں کی اہمیت وفضیلت
باب: چاند دیکھنے کی گواہی
عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے،انہوں نے فرمایا: ایک اعرابی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: میں نے آج رات چاند دیکھا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں؟ ‘‘ اس نے کہا: جی ہاں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بلال !اٹھو لوگوں میں اعلان کر دو کہ کل روزہ رکھیں۔ ‘‘ ایک روایت میں ہے: بلال ؓ نے اعلان کر دیا کہ وہ قیام کریں اور روزہ رکھیں۔
تشریح :
1۔مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے۔تاہم سنن ابودائود میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا لوگ چاند دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔میں نے رسول اللہ ﷺ کو بتایا کہ مجھے چاند نظر آگیا ہے۔رسول اللہ ﷺنے (اس خبر کے مطابق)خود بھی روزہ رکھا۔اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔(سنن ابو دائود۔ الصیام باب الشھادۃ والواحد علی رویۃ ہلال رمضان حدیث 2342)محققین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔لہذا معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کی گواہی رمضان شروع ہونے کا یقین کرنے کے لئے کافی ہے۔2۔رویت ہلال کے مسئلے میں اہل علم میں اختلاف ہے۔کچھ اہل علم کی رائے یہ ہے۔کہ اگر کسی بھی جگہ رمضان کےچاند کی شرعی طریقے سے رویت ثابت ہوجائے تو تمام مسلمانوں کےلئے روزہ رکھنا لازم ہو جاتا ہے۔اور اگر اسی طرح کسی بھی جگہ شوال کے چاند کی رویت ثابت ہوجائے تو تمام مسلمانوں کے لئے روزہ چھوڑنا لازم ہوجاتا ہے۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے۔بعض علمائے کی یہ رائے ہے کہ رمضان کے روزے اور شوال کی عید کے احکام ان کے لئے واجب ہوں گے۔ جو خود چاند دیکھ لیں۔یا چاند دیکھنے والوں کا مطلع ایک ہوکیونکہ اہل معرفت یعنی ماہرین فلکیات کا اتفاق ہے کہ ہلال کے مطالع مختلف ہیں ۔لہذا ضروری ہے کہ ہر ملک اپنی رویئت کے مطابق عمل کرے۔اور اس رویئت کے مطابق عمل ان ملکوں کےلئے واجب ہوگا جن کا مطلع ا س کے مطابق ہو اور جن ممالک کا مطلع اس کے مطابق نہ ہوگا وہ اس کے تابع نہ ہوں گے۔یہ قول شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ شیخ الاسلام کے موقف کی بابت لکھتے ہیں۔کہ مطالع مختلف ہونے کی صورت میں محض عموم کی وجہ سے احکام ہلال ثابت نہ ہوں گے۔بلاشبہ استدلال کے اعتبار سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول اور موقف قوی ہے اور نظر قیاس سے بھی اس کی تایئد ہوتی ہے دیکھئے(فتاویٰ اسلامیہ(اُردو:2/161۔مطبوعہ دارالسلام)
آجکل ہمارے ہاں بھی بعض لوگ روزے عیدین ار دیگر عبادات جو چاند سے متعلق ہوں سعودی عرب کی رویئت ہلال کے مطابق ادا کرتے ہیں۔اور اسی رویئت کو اپنے لئے قابل عمل قرار دیتے ہیں۔اس مسئلے کی بابت سعودی علماء اور مفتیان سے بھی استفسار کیا گیا۔لہذا سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت لکھتے ہیں۔ یہ مسئلہ سعودی عرب کے کبار علماء کی مجلس میں پیش کیا گیا تو ان علماء کی یہ رائے تھی کہ اس مسئلے میں راحج بات یہ ہے کہ اس میں کافی گنجائش ہے۔اپنے ملک کے علماء کی رائے کے مطابق عمل کرلیا جائے تو یہ جائز ہے۔شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔کہ میری رائے میں یہ ایک معتدل رائے ہے۔اور اس سے اہل علم کے مختلف اقوال ودلائل میں تطبیق بھی ہوجاتی ہے۔آگے چل کر انھوں نے علماء کو مخاطب کرکے فرمایا ہے۔کہ اہل علم پر واجب ہے۔کہ ماہ کے آغاذ و ا ختتام کے موقع پراس مسئلے کی طرف خصوصی توجہ مبزول کریں۔اور ایک بات پر متفق ہوجایئں جو انکے اجتہاد کے مطابق حق کے زیادہ قریب ہو۔پھر اسی کے مطابق عمل کریں۔اور لوگوں تک بھی اپنی بات پہنچادیں۔ان کےحکمرانوں اور عام مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ اس سلسلے میں اپنے علماء کی پیروی کریں۔ اور اس مسئلے میں اختلاف نہ کریںَ کیونکہ اس سے لوگ مختلف گروہوں میں تقسیم ہوجایئں گے۔ اور کثرت سے قیل وقال ہونے لگے گی۔ دیکھئے۔(فتاویٰ اسلامیہ (اُردو) 2/158۔159 مطبوعہ دارالسلام)سعودی مفتیان کے فتاویٰ اور دیگر دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ ہر ملک اپنی رویئت اور اپنے علماء کے متفقہ فیصلے کے مطابق ہی روزے عیدیں اور دیگر عبادات بجالایئں۔ان شاء اللہ اسی میں خیر ہے۔واللہ اعلم بالصواب
1۔مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے۔تاہم سنن ابودائود میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا لوگ چاند دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔میں نے رسول اللہ ﷺ کو بتایا کہ مجھے چاند نظر آگیا ہے۔رسول اللہ ﷺنے (اس خبر کے مطابق)خود بھی روزہ رکھا۔اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔(سنن ابو دائود۔ الصیام باب الشھادۃ والواحد علی رویۃ ہلال رمضان حدیث 2342)محققین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔لہذا معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کی گواہی رمضان شروع ہونے کا یقین کرنے کے لئے کافی ہے۔2۔رویت ہلال کے مسئلے میں اہل علم میں اختلاف ہے۔کچھ اہل علم کی رائے یہ ہے۔کہ اگر کسی بھی جگہ رمضان کےچاند کی شرعی طریقے سے رویت ثابت ہوجائے تو تمام مسلمانوں کےلئے روزہ رکھنا لازم ہو جاتا ہے۔اور اگر اسی طرح کسی بھی جگہ شوال کے چاند کی رویت ثابت ہوجائے تو تمام مسلمانوں کے لئے روزہ چھوڑنا لازم ہوجاتا ہے۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے۔بعض علمائے کی یہ رائے ہے کہ رمضان کے روزے اور شوال کی عید کے احکام ان کے لئے واجب ہوں گے۔ جو خود چاند دیکھ لیں۔یا چاند دیکھنے والوں کا مطلع ایک ہوکیونکہ اہل معرفت یعنی ماہرین فلکیات کا اتفاق ہے کہ ہلال کے مطالع مختلف ہیں ۔لہذا ضروری ہے کہ ہر ملک اپنی رویئت کے مطابق عمل کرے۔اور اس رویئت کے مطابق عمل ان ملکوں کےلئے واجب ہوگا جن کا مطلع ا س کے مطابق ہو اور جن ممالک کا مطلع اس کے مطابق نہ ہوگا وہ اس کے تابع نہ ہوں گے۔یہ قول شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ شیخ الاسلام کے موقف کی بابت لکھتے ہیں۔کہ مطالع مختلف ہونے کی صورت میں محض عموم کی وجہ سے احکام ہلال ثابت نہ ہوں گے۔بلاشبہ استدلال کے اعتبار سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول اور موقف قوی ہے اور نظر قیاس سے بھی اس کی تایئد ہوتی ہے دیکھئے(فتاویٰ اسلامیہ(اُردو:2/161۔مطبوعہ دارالسلام)
آجکل ہمارے ہاں بھی بعض لوگ روزے عیدین ار دیگر عبادات جو چاند سے متعلق ہوں سعودی عرب کی رویئت ہلال کے مطابق ادا کرتے ہیں۔اور اسی رویئت کو اپنے لئے قابل عمل قرار دیتے ہیں۔اس مسئلے کی بابت سعودی علماء اور مفتیان سے بھی استفسار کیا گیا۔لہذا سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت لکھتے ہیں۔ یہ مسئلہ سعودی عرب کے کبار علماء کی مجلس میں پیش کیا گیا تو ان علماء کی یہ رائے تھی کہ اس مسئلے میں راحج بات یہ ہے کہ اس میں کافی گنجائش ہے۔اپنے ملک کے علماء کی رائے کے مطابق عمل کرلیا جائے تو یہ جائز ہے۔شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔کہ میری رائے میں یہ ایک معتدل رائے ہے۔اور اس سے اہل علم کے مختلف اقوال ودلائل میں تطبیق بھی ہوجاتی ہے۔آگے چل کر انھوں نے علماء کو مخاطب کرکے فرمایا ہے۔کہ اہل علم پر واجب ہے۔کہ ماہ کے آغاذ و ا ختتام کے موقع پراس مسئلے کی طرف خصوصی توجہ مبزول کریں۔اور ایک بات پر متفق ہوجایئں جو انکے اجتہاد کے مطابق حق کے زیادہ قریب ہو۔پھر اسی کے مطابق عمل کریں۔اور لوگوں تک بھی اپنی بات پہنچادیں۔ان کےحکمرانوں اور عام مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ اس سلسلے میں اپنے علماء کی پیروی کریں۔ اور اس مسئلے میں اختلاف نہ کریںَ کیونکہ اس سے لوگ مختلف گروہوں میں تقسیم ہوجایئں گے۔ اور کثرت سے قیل وقال ہونے لگے گی۔ دیکھئے۔(فتاویٰ اسلامیہ (اُردو) 2/158۔159 مطبوعہ دارالسلام)سعودی مفتیان کے فتاویٰ اور دیگر دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ ہر ملک اپنی رویئت اور اپنے علماء کے متفقہ فیصلے کے مطابق ہی روزے عیدیں اور دیگر عبادات بجالایئں۔ان شاء اللہ اسی میں خیر ہے۔واللہ اعلم بالصواب