Book - حدیث 1650

كِتَاب الصِّيَامِ بَابُ مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ أَنْ يُتَقَدَّمَ رَمَضَانُ بِصَوْمٍ، إِلَّا مَنْ صَامَ صَوْمًا فَوَافَقَهُ صحیح حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ حَبِيبٍ وَالْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَقَدَّمُوا صِيَامَ رَمَضَانَ بِيَوْمٍ وَلَا بِيَوْمَيْنِ إِلَّا رَجُلٌ كَانَ يَصُومُ صَوْمًا فَيَصُومُهُ

ترجمہ Book - حدیث 1650

کتاب: روزوں کی اہمیت وفضیلت باب: رمضان شروع ہونے سے (ایک دن )پہلے روزہ رکھنا منع ہے سوائےاس شخص کے جو پہلےسے اس دن کا روزہ رکھتا چلا آرہا ہو ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’رمضان( شروع ہونے) سے ایک دو دن پہلے روزہ نہ رکھو، سوائے اس شخص کے جو پہلے سے وہ روزہ رکھتا چلا آرہا ہو تو اس دن بھی رکھ لے۔‘‘
تشریح : 1۔رمضان شروع ہونے سے ایک دن پہلے روزہ رکھنے کی ایک صورت شک کا روزہ ہے۔ جس کی تفصیل گزشتہ باب میں بیان ہوئی یعنی جس دن مطلع ابر آلود ہونے یا کسی اور وجہ سے چاند نظر آنے کی شرعی گواہی نہ مل سکی ہو۔اور لوگوں کو اس کی بابت شک ہو کہ تیس شعبان ہے۔یا یکم رمضان تو اس دن اس نیت سے روزہ رکھنا کہ اگر بعد میں ثابت ہوگیا کہ رمضان شروع ہوچکا تھا تو یہ رمضان کا روزہ شمار ہوگا ورنہ نفلی روزہ ہوجائے گا۔یہ صورت جائز نہیں۔2۔رمضان سے پہلے روزہ رکھنے کی دوسری صورت یہ ہے کہ رمضان شروع نہ ہونے کا یقینی علم ہونے کے باوجود روزہ رکھا جائے اس طرح نفل اور فرض کو باہم ملا دیا جائے تو یہ بھی جائز نہیں بلکہ یہ عمل ظاہری طور پر فرضی عبادت میں اضافے سے مشابہ ہے۔3۔رمضان سے پہلے روزہ رکھنے کی تیسری صورت یہ ہے مثلا ایک شخص کا معمول سنت کے مطابق سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھنا ہے۔اتفاقاً 29 یا 30 شعبان کو سوموار یاجمعرات کا دن تھا اور اس سے اگلے دن یکم رمضان ہوگیا۔تو یہ روزہ رمضان سے پہلے اس سے متصل ہے۔یا کسی کے ذمے قضاء وغیرہ کے روزے تھے۔ وہ 29 یا 30 شعبان کو ختم ہوئے۔ان صورتوں میں یا ایسی ہی کسی اور صورت میں اس کاارادہ رمضان کے ساتھ دوسرے روزے ملانے کا نہیں تھا بلکہ اتفاقاً یہ روزے رمضان کے روزوں سے آملے۔تو یہ صورت جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔ 1۔رمضان شروع ہونے سے ایک دن پہلے روزہ رکھنے کی ایک صورت شک کا روزہ ہے۔ جس کی تفصیل گزشتہ باب میں بیان ہوئی یعنی جس دن مطلع ابر آلود ہونے یا کسی اور وجہ سے چاند نظر آنے کی شرعی گواہی نہ مل سکی ہو۔اور لوگوں کو اس کی بابت شک ہو کہ تیس شعبان ہے۔یا یکم رمضان تو اس دن اس نیت سے روزہ رکھنا کہ اگر بعد میں ثابت ہوگیا کہ رمضان شروع ہوچکا تھا تو یہ رمضان کا روزہ شمار ہوگا ورنہ نفلی روزہ ہوجائے گا۔یہ صورت جائز نہیں۔2۔رمضان سے پہلے روزہ رکھنے کی دوسری صورت یہ ہے کہ رمضان شروع نہ ہونے کا یقینی علم ہونے کے باوجود روزہ رکھا جائے اس طرح نفل اور فرض کو باہم ملا دیا جائے تو یہ بھی جائز نہیں بلکہ یہ عمل ظاہری طور پر فرضی عبادت میں اضافے سے مشابہ ہے۔3۔رمضان سے پہلے روزہ رکھنے کی تیسری صورت یہ ہے مثلا ایک شخص کا معمول سنت کے مطابق سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھنا ہے۔اتفاقاً 29 یا 30 شعبان کو سوموار یاجمعرات کا دن تھا اور اس سے اگلے دن یکم رمضان ہوگیا۔تو یہ روزہ رمضان سے پہلے اس سے متصل ہے۔یا کسی کے ذمے قضاء وغیرہ کے روزے تھے۔ وہ 29 یا 30 شعبان کو ختم ہوئے۔ان صورتوں میں یا ایسی ہی کسی اور صورت میں اس کاارادہ رمضان کے ساتھ دوسرے روزے ملانے کا نہیں تھا بلکہ اتفاقاً یہ روزے رمضان کے روزوں سے آملے۔تو یہ صورت جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔