Book - حدیث 164

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فَضْلُ الْأَنْصَارِ صحیح حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ عَبْدِ الْمُهَيْمِنِ بْنِ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْأَنْصَارُ شِعَارٌ، وَالنَّاسُ دِثَارٌ، وَلَوْ أَنَّ النَّاسَ اسْتَقْبَلُوا وَادِيًا أَوْ شِعْبًا، وَاسْتَقْبَلَتِ الْأَنْصَارُ وَادِيًا، لَسَلَكْتُ وَادِيَ الْأَنْصَارِ، وَلَوْلَا الْهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَأً مِنَ الْأَنْصَارِ»

ترجمہ Book - حدیث 164

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: انصار کی فضیلت حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ انصار بدن سے متصل لباس ( کی طرح) ہیں اور دوسرے لوگ چادر( کی طرح) ہیں۔ اگر لوگ ایک وادی یا گھاٹی اختیار کریں ،اور انصاردوسری وادی کی طرف چلیں ،تو میں انصار کی وادی میں چلوں گا۔ اور اگر ہجرت نہ ہوتی، تو میں انصار کا ایک فرد ہوتا۔‘‘
تشریح : (1) اس کی سند میں ایک راوی عبدالمہیمن ہے جو ضعیف ہے لیکن یہ حدیث دوسری صحیح سندوں سے صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مروی ہے۔ (صحيح البخاري‘ كتاب مناقب الانصار‘ باب قول النبي صلي الله عليه وسلم: لولا الهجرة لكنت امرا من الانصار‘ حديث:3779‘ و صحيح مسلم‘ كتاب الزكاة‘ باب اعطاء المولفة قبولبهم علي الاسلام و تصبر من قوي ايمانه‘ حديث:1059) اس لیے یہ حدیث صحیح ہے۔ (2) یہ ارشاد مبارک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین کے بعد فرمایا تھا۔ غنیمتوں کی تقسیم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بالکل نہیں دیا تھا۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا کہ انصار کی جاں نثاری اور بیادری کا انکار نہیں، لیکن چونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ مقرب اور ایمان میں زیادہ مضبوط ہیں، اس لیے ان کے ایمان پر اعتماد کر کے ان کے بجائے دوسرے افراد کو دیا گیا جنہیں تالیف قلب کی ضرورت تھی۔ (3) اس ارشاد مبارک سے انصار کا بلند مقام واضح ہوتا ہے اور یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں بھی انصار کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ (4) اس حدیث میں انصار کو شعار اور دوسرے مسلمانوں کو دثار فرمایا گیا ہے۔ شعار اس کپڑے کو کہتے ہیں جو پہننے والے کے جسم سے مس ہوتا ہے اور دثار وہ لباس ہوتا ہے جو شعار کے اوپر پہنا جاتا ہے۔ اس تشبیہ سے مقصود، اس بات کا اظہار تھا کہ انصار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصوصٰ قرب کے شرف سے مشرف ہیں۔ (5) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ہجرت ایک عظٰم عمل ہے اسی طرح مہاجرین کی مدد اور نصرت بھی ایک عظیم عمل ہے۔ (6) مہاجرین کے بعد انصار سب سے افضل ہیں۔ (1) اس کی سند میں ایک راوی عبدالمہیمن ہے جو ضعیف ہے لیکن یہ حدیث دوسری صحیح سندوں سے صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مروی ہے۔ (صحيح البخاري‘ كتاب مناقب الانصار‘ باب قول النبي صلي الله عليه وسلم: لولا الهجرة لكنت امرا من الانصار‘ حديث:3779‘ و صحيح مسلم‘ كتاب الزكاة‘ باب اعطاء المولفة قبولبهم علي الاسلام و تصبر من قوي ايمانه‘ حديث:1059) اس لیے یہ حدیث صحیح ہے۔ (2) یہ ارشاد مبارک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین کے بعد فرمایا تھا۔ غنیمتوں کی تقسیم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بالکل نہیں دیا تھا۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا کہ انصار کی جاں نثاری اور بیادری کا انکار نہیں، لیکن چونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ مقرب اور ایمان میں زیادہ مضبوط ہیں، اس لیے ان کے ایمان پر اعتماد کر کے ان کے بجائے دوسرے افراد کو دیا گیا جنہیں تالیف قلب کی ضرورت تھی۔ (3) اس ارشاد مبارک سے انصار کا بلند مقام واضح ہوتا ہے اور یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں بھی انصار کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ (4) اس حدیث میں انصار کو شعار اور دوسرے مسلمانوں کو دثار فرمایا گیا ہے۔ شعار اس کپڑے کو کہتے ہیں جو پہننے والے کے جسم سے مس ہوتا ہے اور دثار وہ لباس ہوتا ہے جو شعار کے اوپر پہنا جاتا ہے۔ اس تشبیہ سے مقصود، اس بات کا اظہار تھا کہ انصار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصوصٰ قرب کے شرف سے مشرف ہیں۔ (5) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ہجرت ایک عظٰم عمل ہے اسی طرح مہاجرین کی مدد اور نصرت بھی ایک عظیم عمل ہے۔ (6) مہاجرین کے بعد انصار سب سے افضل ہیں۔