Book - حدیث 1638

كِتَاب الصِّيَامِ بَابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الصِّيَامِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَوَكِيعٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ مَا شَاءَ اللَّهُ يَقُولُ اللَّهُ إِلَّا الصَّوْمَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ يَدَعُ شَهْوَتَهُ وَطَعَامَهُ مِنْ أَجْلِي لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهِ وَفَرْحَةٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّهِ وَلَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ

ترجمہ Book - حدیث 1638

کتاب: روزوں کی اہمیت وفضیلت باب: روزے کے فضائل ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ابن آدم کے ہر عمل( کے ثواب) میں اضافہ کیا جاتا ہے، نیکی کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا بلکہ( اس سے بھی زیادہ) جتنا اللہ چاہے ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مگر روزہ( اس قانون سے مستثنی ہے) کیوں وہ( خالصتاً) میرے لیے ہوتا ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ بندہ میری خاطر اپنی خواہشات اور کھانا ترک کرتا ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی روزہ کھولتے وقت ( حاصل ہوتی ہے) اور ایک خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت( حاصل ہوگی۔) اللہ کے ہاں روزہ دار کے منہ کی بو کستوری کی مہک سے بھی زیادہ عمدہ ہے۔ ‘‘
تشریح : یہ بندوں پر اللہ کا خاص فضل ہے۔کہ بندہ جو اس کی توفیق سے نیکی کرتا ہے۔اس کا ثواب صرف ایک نیکی کے برابر دینے کی بجائے بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔(مَن جَآءَ بِٱلْحَسَنَةِ فَلَهُۥ عَشْرُ أَمْثَالِهَا)(الانعام 6:160) جو شخص نیکی لے کر حاضر ہوا اس کے لئے اس کادس گنا ہے۔ حدیث سے معلوم ہوا کہ قرآن کی بیان کردہ یہ مقدار کم از کم ہے۔ثواب اس سے کہیں زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔2۔ثواب کی کثرت کادارومدار حسن نیت اخلاص اور اتباع سنت پر ہے۔صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کا ایمان اس قدر عظیم الشان تھا۔کہ ان کا للہ کی راہ میں دیا ہوا آدھ سیر غلہ بعد والوں کے احد پہاڑ برابر سونا خرچ کرنے سے افضل ہے۔(سنن ابن ماجہ حدیث 161)اس لئے ہرشخص کے حالات وکیفیات کے مطابق نیکی کی ثواب سینکڑوں گنا تک پہنچ سکتاہے۔3۔عمل وہی قبول ہوتاہے۔جو خالص اللہ کی رضا کےلئے کیا گیا ہو۔ریا اور دکھاوے کی غرض سے کیا جانے والا عمل اللہ کے ہاں ناقابل قبول ہے۔چونکہ روزے کا تعلق نیت سے ہوتا ہے۔اور دوسرے ظاہری اعمال مثلا نماز زکواۃ اور حج وغیرہ کی نسبت روزہ پوشیدہ ہوتا ہے ار اس میں ریا کا شایبہ بھی کم ہوتا ہے۔اسی وجہ سے اس کےاجر کو بھی پوشیدہ رکھا گیا ہے۔4۔روزے کا اصل فائدہ تبھی حاصل ہوتا ہے۔جب انسان دل کی غلظ خواہشات پور کرنے سے پرہیز کرے۔یعنی جس طرح کھانا کھانے سے پرہیز کرتاہے۔اسی طرح جھوٹ اور غیبت وغیرہ سے بھی اجتناب کرے۔5۔روزہ کھولتے وقت اس بات کی خوشی ہوتی ہے۔کہ اللہ کے فضل سے ایک نیک کام مکمل کرنے کی توفیق ملی۔6۔قیامت کو خوشی اس لئے ہوگی کہ روزے کا ثواب اس کی توقع سے بڑھ کرملے گا۔اور اللہ کی رضا حاصل ہوگی۔7۔منہ کی بو سے بو مراد ہے۔جو پیٹ خالی رہن کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔چونکہ یہ اللہ کی اطاعت کا ایک کام کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔اس لئے اللہ کو بہت محبوب ہے۔8۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ روزے کی حالت میں شام کے وقت مسواک کرنے سے بچنا چاہیے۔تاکہ اللہ کی پسندیدہ بو ختم نہ ہوجائے۔لیکن یہ درست نہیں کیونکہ مسواک سے وہ بو ختم ہوتی ہے۔جو منہ کی صفائی نہ ہونے کیوجہ سے پیدا ہوتی ہے۔معدہ خالی ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والی بو دوسری ہے۔اس کا مسواک کرنے یا نہ کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ بندوں پر اللہ کا خاص فضل ہے۔کہ بندہ جو اس کی توفیق سے نیکی کرتا ہے۔اس کا ثواب صرف ایک نیکی کے برابر دینے کی بجائے بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔(مَن جَآءَ بِٱلْحَسَنَةِ فَلَهُۥ عَشْرُ أَمْثَالِهَا)(الانعام 6:160) جو شخص نیکی لے کر حاضر ہوا اس کے لئے اس کادس گنا ہے۔ حدیث سے معلوم ہوا کہ قرآن کی بیان کردہ یہ مقدار کم از کم ہے۔ثواب اس سے کہیں زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔2۔ثواب کی کثرت کادارومدار حسن نیت اخلاص اور اتباع سنت پر ہے۔صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کا ایمان اس قدر عظیم الشان تھا۔کہ ان کا للہ کی راہ میں دیا ہوا آدھ سیر غلہ بعد والوں کے احد پہاڑ برابر سونا خرچ کرنے سے افضل ہے۔(سنن ابن ماجہ حدیث 161)اس لئے ہرشخص کے حالات وکیفیات کے مطابق نیکی کی ثواب سینکڑوں گنا تک پہنچ سکتاہے۔3۔عمل وہی قبول ہوتاہے۔جو خالص اللہ کی رضا کےلئے کیا گیا ہو۔ریا اور دکھاوے کی غرض سے کیا جانے والا عمل اللہ کے ہاں ناقابل قبول ہے۔چونکہ روزے کا تعلق نیت سے ہوتا ہے۔اور دوسرے ظاہری اعمال مثلا نماز زکواۃ اور حج وغیرہ کی نسبت روزہ پوشیدہ ہوتا ہے ار اس میں ریا کا شایبہ بھی کم ہوتا ہے۔اسی وجہ سے اس کےاجر کو بھی پوشیدہ رکھا گیا ہے۔4۔روزے کا اصل فائدہ تبھی حاصل ہوتا ہے۔جب انسان دل کی غلظ خواہشات پور کرنے سے پرہیز کرے۔یعنی جس طرح کھانا کھانے سے پرہیز کرتاہے۔اسی طرح جھوٹ اور غیبت وغیرہ سے بھی اجتناب کرے۔5۔روزہ کھولتے وقت اس بات کی خوشی ہوتی ہے۔کہ اللہ کے فضل سے ایک نیک کام مکمل کرنے کی توفیق ملی۔6۔قیامت کو خوشی اس لئے ہوگی کہ روزے کا ثواب اس کی توقع سے بڑھ کرملے گا۔اور اللہ کی رضا حاصل ہوگی۔7۔منہ کی بو سے بو مراد ہے۔جو پیٹ خالی رہن کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔چونکہ یہ اللہ کی اطاعت کا ایک کام کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔اس لئے اللہ کو بہت محبوب ہے۔8۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ روزے کی حالت میں شام کے وقت مسواک کرنے سے بچنا چاہیے۔تاکہ اللہ کی پسندیدہ بو ختم نہ ہوجائے۔لیکن یہ درست نہیں کیونکہ مسواک سے وہ بو ختم ہوتی ہے۔جو منہ کی صفائی نہ ہونے کیوجہ سے پیدا ہوتی ہے۔معدہ خالی ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والی بو دوسری ہے۔اس کا مسواک کرنے یا نہ کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔