Book - حدیث 1631

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ ذِكْرِ وَفَاتِهِ وَدَفْنِهِﷺ صحیح حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الصَّوَّافُ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي دَخَلَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ أَضَاءَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ أَظْلَمَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ وَمَا نَفَضْنَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَيْدِيَ حَتَّى أَنْكَرْنَا قُلُوبَنَا

ترجمہ Book - حدیث 1631

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب: رسول اللہ ﷺ کی وفات اور آپ کے دفن کا بیان انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:جس دن رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ میں تشریف فر ہوئے اس کی ہر چیز روشن ہوگئی اور جس دن آپ کی وفات ہوئی، مدینہ کی ہر چیز تاریک ہوگئی۔ ہم نے نبی ﷺ کو دفن کر کے اپنے جھاڑے تو اسی وقت ہمیں اپنے دلوں کی حالت بدلی ہوئی محسوس ہوئی۔
تشریح : 1۔رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس روحانی اور مادی برکات کا باعث تھی۔2۔پاک صاف دل روحانی برکات کو محسوس کرتا ہے۔دل کی توجہ اللہ کی طرف ہو موت کو یاد کیاجائے۔قرآن مجید کی تلاوت نفل نماز اور روزے کا اہتمام کیا جائے۔رزق حلال اور سچ بولنے کی پابندی اختیار کی جائے تو دل روشن ہوجاتا ہے۔جیسے کہ مختلف احادیث میں وارد ہے۔3۔صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کے دل صحبت نبوی اور تعلیم وتزکیہ کی وجہ سے اس قدر منور ہوچکے تھے کہ وہ روحانی برکات کے نزول ان میں کمی کو اس طرح محسوس فرما لیتے تھے۔ جس طرح عام انسان ظاہری روشنی اور تاریکی کو محسوس کرتا ہے۔4۔رسول اللہ ﷺ کی مدینہ میں تشریف آوری سے درودیوار کا روشن ہوجاناایک تو اس خوشی کی وجہ سے ہے۔جو اہل ایمان کو رسول للہ ﷺ کی زیارت اور ہمسایئگی کے حصول سے ہوئی۔دوسرے ان برکات اور رحمتوں کے نزول کی وجہ سےجو آپﷺ کی وجہ سے اہل مدینہ کو حاصل ہویئں۔اسی طرح وفات نبویﷺ سے تاریکی کا احساس بھی یہ دونوں پہلو رکھتا ہے۔غم کی حالت میں کوئی چیز اچھی نہیں لگتی۔کہیں دل نہیں لگتا۔اور نبی کریمﷺ کی رحلت سے نبوت کے انواروبرکات سے براہ راست فیض حاصل کرنا بھی ممکن نہ رہا۔5۔دلوں کی کیفیت تبدیل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایمان میں اضافے کا ایک اہم زریعہ یعنی صحبت وتعلیم نبویﷺ ختم ہوجانے کی وجہ سے قلبی احوال کا وہ مقام حاصل کرنا ممکن نہ رہا جو پہلے حاصل تھا اس کے باوجود صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کا ایمان امت میں سب سے کامل اور مضبوط تھا۔ 1۔رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس روحانی اور مادی برکات کا باعث تھی۔2۔پاک صاف دل روحانی برکات کو محسوس کرتا ہے۔دل کی توجہ اللہ کی طرف ہو موت کو یاد کیاجائے۔قرآن مجید کی تلاوت نفل نماز اور روزے کا اہتمام کیا جائے۔رزق حلال اور سچ بولنے کی پابندی اختیار کی جائے تو دل روشن ہوجاتا ہے۔جیسے کہ مختلف احادیث میں وارد ہے۔3۔صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کے دل صحبت نبوی اور تعلیم وتزکیہ کی وجہ سے اس قدر منور ہوچکے تھے کہ وہ روحانی برکات کے نزول ان میں کمی کو اس طرح محسوس فرما لیتے تھے۔ جس طرح عام انسان ظاہری روشنی اور تاریکی کو محسوس کرتا ہے۔4۔رسول اللہ ﷺ کی مدینہ میں تشریف آوری سے درودیوار کا روشن ہوجاناایک تو اس خوشی کی وجہ سے ہے۔جو اہل ایمان کو رسول للہ ﷺ کی زیارت اور ہمسایئگی کے حصول سے ہوئی۔دوسرے ان برکات اور رحمتوں کے نزول کی وجہ سےجو آپﷺ کی وجہ سے اہل مدینہ کو حاصل ہویئں۔اسی طرح وفات نبویﷺ سے تاریکی کا احساس بھی یہ دونوں پہلو رکھتا ہے۔غم کی حالت میں کوئی چیز اچھی نہیں لگتی۔کہیں دل نہیں لگتا۔اور نبی کریمﷺ کی رحلت سے نبوت کے انواروبرکات سے براہ راست فیض حاصل کرنا بھی ممکن نہ رہا۔5۔دلوں کی کیفیت تبدیل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایمان میں اضافے کا ایک اہم زریعہ یعنی صحبت وتعلیم نبویﷺ ختم ہوجانے کی وجہ سے قلبی احوال کا وہ مقام حاصل کرنا ممکن نہ رہا جو پہلے حاصل تھا اس کے باوجود صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کا ایمان امت میں سب سے کامل اور مضبوط تھا۔