Book - حدیث 1627

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ ذِكْرِ وَفَاتِهِ وَدَفْنِهِﷺ صحيح - دون جملة الوحى - حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ عِنْدَ امْرَأَتِهِ ابْنَةِ خَارِجَةَ بِالْعَوَالِي فَجَعَلُوا يَقُولُونَ لَمْ يَمُتْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا هُوَ بَعْضُ مَا كَانَ يَأْخُذُهُ عِنْدَ الْوَحْيِ فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ وَقَبَّلَ بَيْنَ عَيْنَيْهِ وَقَالَ أَنْتَ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْ أَنْ يُمِيتَكَ مَرَّتَيْنِ قَدْ وَاللَّهِ مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعُمَرُ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ يَقُولُ وَاللَّهِ مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يَمُوتُ حَتَّى يَقْطَعَ أَيْدِيَ أُنَاسٍ مِنْ الْمُنَافِقِينَ كَثِيرٍ وَأَرْجُلَهُمْ فَقَامَ أَبُو بَكْرٍ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَمْ يَمُتْ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ قَالَ عُمَرُ فَلَكَأَنِّي لَمْ أَقْرَأْهَا إِلَّا يَوْمَئِذٍ

ترجمہ Book - حدیث 1627

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب: رسول اللہ ﷺ کی وفات اور آپ کے دفن کا بیان عائشہ ؓا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی اس وقت ابو بکر ؓ عوالی میں اپنی زوجہ محترمہ خارجہ کی بیٹی کے ہاں تشریف فر تھے۔ بعض افراد نے کہا: نبی ﷺ فوت نہیں ہوئے، یہ تو اس سے ملتی جلتی کیفیت ہے، جو رسول اللہ ﷺ پر نزول وحی کے موقع پر طاری ہوا کرتی تھی۔ ابو بکر ؓ تشریف لائے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے چہرہٴ اقدس سے کپڑا ہٹایا اور دونوں آنکھوں کے درمیان( پیشانئ مبارک پر) بوسہ دیا اور فرمایا: اللہ کے ہاں آپ کی شان اتنی بلند ہے کہ وہ آپ پر دوبار موت طاری نہیں کرے گا، اللہ کی قسم! اللہ کے رسول ﷺ فوت ہوگئے ہیں۔ ( اس وقت) عمر ؓ مسجد کے ایک حصے میں فر رہے تھے : قسم ہے اللہ کی! اللہ کے رسول ﷺ فوت نہیں ہوئے اور آپ ﷺ اس وقت تک فوت نہیں ہوں گے جب تک بہت سے منافقوں کے ہاتھ پاؤں نہیں کاٹ دیتے۔ ابو بکر ؓ اٹھ کر منبر پر چلے گئے اور فرمایا: جو کوئی اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ تعالیٰ زندہ ہے ، فوت نہیں ہوا، اور جو کوئی محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا تو( اس کے معبود) محمد ﷺ کی تو وفات ہوگئی۔ (اور یہ آیت پڑھی:)(وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِى اللَّهُ الشَّاكِرِينَ )’’اور محمد (ﷺ) صرف ایک رسول ہیں۔ اس سے پہلے رسول گزر چکے ہیں۔ تو اگر وہ فوت ہو جائیں یا شہید ہو جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور جو کوئی الٹے پاؤں پھرے گا وہ اللہ کا کچ نقصان نہیں کرے گا۔ اور شکر گزاروں کو اللہ جزادے گا۔‘‘ عمر ؓ نے ( بعد میں) فرمایا: مجھے تو ( ابو بکر سے یہ آیت سن کر) یوں محسوس ہوا تھا، گویا میں نے( یہ آیت) اسی دن پڑھی ہے( گویا پہلے کبھی پڑھی یا سنی ہی نہیں۔ )
تشریح : 1۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سندا ضعیف قرار دیا ہے۔اور مذید لکھا ہے کہ اس کی اصل الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ صحیح بخاری کی حدیث 1241۔1242)میں ہے۔علاوہ ازیں دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو صحیح کہا ہے۔شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت لکھتے ہیں۔کہ مذکورہ روایت وحی کے زکر کے بغیر صحیح ہے۔تفصیل کے لئے دیکھئے۔(الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند االامام احمد 41/355۔356وصحیح سنن ابن ماجہ للبانی رقم 1329 وسنن ابن ماجہ للدکتور بشار عواد حدیث 1627)الحاصل مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔2۔رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلسل حاضر خدمت رہے تھے۔اور رسول اللہ ﷺ ی بیماری کے ایام میں نماز کی امامت کے فرائض انجام دیتے رہےتھے۔حتیٰ کہ سوموار کے دن فجر کی نماز بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتداء میں ادا کی گئی۔اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی کام کے سے اپنے گھر تشریف لے گئے جو عوالی میں مقام سخ پر واقع تھا۔وہیں انھیں رسول اللہﷺ کی رحلت کی خبر ملی3۔صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کا یہ عقیدہ نہیں تھا کہ رسول اللہ ﷺ کو موت نہیں آسکتی۔لیکن وہ حضرات اچانک صدمے کی وجہ سے اوسان کھوبیٹھے تھے۔وفات نبویﷺ کا سانحہ ان کے لئے ناقابل برداشت تھا۔اس زہنی کیفیت میں بعض حضرات کی زبان سے اس قسم کی باتیں نکل گئیں۔4۔اس واقعے سے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی علو شان اور عظیم مرتبے کا اظہار ہوتا ہے کہ اس عظیم سانحہ کے وقت انھوں نے امت کی قیادت اور رہنمائی کافریضہ انجام دیا۔جس کے لئے ان حالات میں انتہائی قوت برداشت صبر حوصلے اورتدبیر کی ضرورت تھی۔5۔یہ بھی حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکمت تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے الجھنے کی بجائے ایک طرف ہوکر اپنی بات شروع کردی۔جس سے حاضرین کی توجہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے ہٹ گئی۔اور اس معاملے پرآسانی سے قابو پالیا گیا۔6۔حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بغیر کسی تمہید کے اصل بات شروع کردی۔کیونکہ حالات کا تقاضا یہی تھا۔ساتھ ہی قرآن مجید کی وہ آیت تلاوت کی جو اس موقعے کے لئے مناسب ترین تھی۔علمائے کرام کو چاہیے کہ کسی بھی وقتی معاملے میں غور وفکر کے بعد صحیح رائے قائم کرنے کی کوشش کریں۔اگرچہ وہ رائے عوام الناس کی سوچ کے خلاف ہواور اسے دلائل سے واضح کریں۔علماء کا فرض عوام کی رہنمائی اور قیادت کرنا ہے۔ان کے پیچھے چلنا نہیں۔7۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب اپنی جذباتی کیفیت کی غلطی کا احساس ہوا تو انھوں نے فورا صحیح بات کو قبول کرلیا۔علماء کا صرف یہی فرض نہیں کہ حکام کی ہر صحیح اورغلطل بات کی مخالفت کریں بلکہ صحیح بات کی تایئد کرنا اور اس پر عمل کے سلسلے میں ممکن عملی تعاون پیش کرنا بھی ضروری ہے۔8۔صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین معصوم عن الخطا نہیں تھے۔لیکن رسول اللہ ﷺ کی تربیت کا اثر تھا۔ کہ جب انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا تو فورا اپنے موقف سے رجوع فرمالیتے تھے۔مسلمانوں اور خصوصا ً علمائے کرام کی بھی یہی عادت ہونی چاہیے۔ 1۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سندا ضعیف قرار دیا ہے۔اور مذید لکھا ہے کہ اس کی اصل الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ صحیح بخاری کی حدیث 1241۔1242)میں ہے۔علاوہ ازیں دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو صحیح کہا ہے۔شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت لکھتے ہیں۔کہ مذکورہ روایت وحی کے زکر کے بغیر صحیح ہے۔تفصیل کے لئے دیکھئے۔(الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند االامام احمد 41/355۔356وصحیح سنن ابن ماجہ للبانی رقم 1329 وسنن ابن ماجہ للدکتور بشار عواد حدیث 1627)الحاصل مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔2۔رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلسل حاضر خدمت رہے تھے۔اور رسول اللہ ﷺ ی بیماری کے ایام میں نماز کی امامت کے فرائض انجام دیتے رہےتھے۔حتیٰ کہ سوموار کے دن فجر کی نماز بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتداء میں ادا کی گئی۔اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی کام کے سے اپنے گھر تشریف لے گئے جو عوالی میں مقام سخ پر واقع تھا۔وہیں انھیں رسول اللہﷺ کی رحلت کی خبر ملی3۔صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کا یہ عقیدہ نہیں تھا کہ رسول اللہ ﷺ کو موت نہیں آسکتی۔لیکن وہ حضرات اچانک صدمے کی وجہ سے اوسان کھوبیٹھے تھے۔وفات نبویﷺ کا سانحہ ان کے لئے ناقابل برداشت تھا۔اس زہنی کیفیت میں بعض حضرات کی زبان سے اس قسم کی باتیں نکل گئیں۔4۔اس واقعے سے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی علو شان اور عظیم مرتبے کا اظہار ہوتا ہے کہ اس عظیم سانحہ کے وقت انھوں نے امت کی قیادت اور رہنمائی کافریضہ انجام دیا۔جس کے لئے ان حالات میں انتہائی قوت برداشت صبر حوصلے اورتدبیر کی ضرورت تھی۔5۔یہ بھی حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکمت تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے الجھنے کی بجائے ایک طرف ہوکر اپنی بات شروع کردی۔جس سے حاضرین کی توجہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے ہٹ گئی۔اور اس معاملے پرآسانی سے قابو پالیا گیا۔6۔حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بغیر کسی تمہید کے اصل بات شروع کردی۔کیونکہ حالات کا تقاضا یہی تھا۔ساتھ ہی قرآن مجید کی وہ آیت تلاوت کی جو اس موقعے کے لئے مناسب ترین تھی۔علمائے کرام کو چاہیے کہ کسی بھی وقتی معاملے میں غور وفکر کے بعد صحیح رائے قائم کرنے کی کوشش کریں۔اگرچہ وہ رائے عوام الناس کی سوچ کے خلاف ہواور اسے دلائل سے واضح کریں۔علماء کا فرض عوام کی رہنمائی اور قیادت کرنا ہے۔ان کے پیچھے چلنا نہیں۔7۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب اپنی جذباتی کیفیت کی غلطی کا احساس ہوا تو انھوں نے فورا صحیح بات کو قبول کرلیا۔علماء کا صرف یہی فرض نہیں کہ حکام کی ہر صحیح اورغلطل بات کی مخالفت کریں بلکہ صحیح بات کی تایئد کرنا اور اس پر عمل کے سلسلے میں ممکن عملی تعاون پیش کرنا بھی ضروری ہے۔8۔صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین معصوم عن الخطا نہیں تھے۔لیکن رسول اللہ ﷺ کی تربیت کا اثر تھا۔ کہ جب انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا تو فورا اپنے موقف سے رجوع فرمالیتے تھے۔مسلمانوں اور خصوصا ً علمائے کرام کی بھی یہی عادت ہونی چاہیے۔