Book - حدیث 1626

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ مَا جَاءَ فِي ذِكْرِ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِﷺ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ قَالَ ذَكَرُوا عِنْدَ عَائِشَةَ أَنَّ عَلِيًّا كَانَ وَصِيًّا فَقَالَتْ مَتَى أَوْصَى إِلَيْهِ فَلَقَدْ كُنْتُ مُسْنِدَتَهُ إِلَى صَدْرِي أَوْ إِلَى حَجْرِي فَدَعَا بِطَسْتٍ فَلَقَدْ انْخَنَثَ فِي حِجْرِي فَمَاتَ وَمَا شَعَرْتُ بِهِ فَمَتَى أَوْصَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ Book - حدیث 1626

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب: رسول اللہ ﷺ کے مرض وفات کا بیان اسود ؓ سے روایت ہے،ا نہوں نے فرمایا: کچھ لوگوں نے عائشہ ؓا کی موجودگی میں یہ ذکر کیا کہ علی ؓ وصی تھی( نبی ﷺ نے ان کے حق میں وصیت کی تھی۔ ) ام المومنین نے فرمایا: نبی ﷺ نے انہیں کس وقت وصیت کی؟ (جب کہ وفات کے وقت) رسول اللہ ﷺ کا سر مبارک میرے سینے پر یا( فرمایا) میری گود میں تھا۔( میں نے ان کو سینے یا گود کا سہادا دیا ہوا تھا) آپ نے برتن طلب فرمایا۔ (اچانک) میری گود ہی میں آپ کا جسم مبارک ڈھیلا پڑ گیا اور مجھے( روح اقدس کے پرواز کر جانے کا) احساس بھی نہ ہوا۔ پھر آپ نے وصیت کس وقت کی؟
تشریح : 1۔شیعہ فرقے کے خود ساختہ مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے اپنی زندگی میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا جانشین نامزد فرمادیا تھا۔لیکن اس دعوے کی کوئی مضبوط دلیل نہیں۔اگر رسول اللہ ﷺ نے کسی کا تعین فرمایا ہوتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو مشورہ کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔بلکہ رسول اللہﷺ کی نظر میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی جانشینی کے زیادہ لائق تھے۔خود حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی سقیفہ بنو ساعدہ میں یہ نہیں فرمایا کہ تمھیں مشورہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ مجھے نامزد کیا جاچکا ہے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور حکومت میں بھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس امر کا اظہار نہیں فرمایا۔بلکہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد بھی انھیں خلافت کی زمہ داری اٹھانے میں تامل تھا۔بعض لوگوں کے اصرار پر انھوں نے یہ منصب قبول فرمایا تھا۔تفصیلات تاریخ کی کتابوں میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔2۔موت کی سختی کا ایک جسمانی اثر ہے۔جو نیک لوگوں پر بھی ظاہر ہوجاتا ہے۔ایک روحانی سختی ہے۔جس کاتعلق فرشتوں کے روح قبض کرنے سے ہے۔یہ نیک مومن افراد پر نہیں ہوتی۔رسول اللہ ﷺ نے روح پرواز کرنے سے پہلے کچھ گھبراہٹ محسوس کی لیکن جسم سے روح کی جُدائی اس قدر غیر محسوس طریقے پر عمل میں آئی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو احسان تب ہوا جب روح اقدس عالم بالا میں پرواز کرچکی تھی۔3۔رسول اللہ ﷺ شدت ضعف کی وجہ سے پیشاب کی حاجت کےلئے بستر سے اترنے میں مشکل محسوس کررہے تھےاس لئے برتن طلب فرمایا تاکہ اس حاجت سے فارغ ہو جایئں اور جسم اطہر اور لباس مبارک بھی قطرات سے محفوظ رہیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ کی نظر میں جسمانی طہارت وصفائی کی اہمیت کس قدر زیادہ تھی۔4۔نبی کریمﷺ نے برتن طلب فرمایا لیکن یہ حاجت پوری کرنے کی نوبت نہ آئی۔اس سے علم غیب کے عقیدے کی نفی ہوتی ہے۔اگر نبی کریمﷺ کوعلم ہوتا کہ برتن کے استعمال کی ضرورت محسوس پڑے گی تو طلب نہ فرماتے۔ 1۔شیعہ فرقے کے خود ساختہ مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے اپنی زندگی میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا جانشین نامزد فرمادیا تھا۔لیکن اس دعوے کی کوئی مضبوط دلیل نہیں۔اگر رسول اللہ ﷺ نے کسی کا تعین فرمایا ہوتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو مشورہ کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔بلکہ رسول اللہﷺ کی نظر میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی جانشینی کے زیادہ لائق تھے۔خود حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی سقیفہ بنو ساعدہ میں یہ نہیں فرمایا کہ تمھیں مشورہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ مجھے نامزد کیا جاچکا ہے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور حکومت میں بھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس امر کا اظہار نہیں فرمایا۔بلکہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد بھی انھیں خلافت کی زمہ داری اٹھانے میں تامل تھا۔بعض لوگوں کے اصرار پر انھوں نے یہ منصب قبول فرمایا تھا۔تفصیلات تاریخ کی کتابوں میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔2۔موت کی سختی کا ایک جسمانی اثر ہے۔جو نیک لوگوں پر بھی ظاہر ہوجاتا ہے۔ایک روحانی سختی ہے۔جس کاتعلق فرشتوں کے روح قبض کرنے سے ہے۔یہ نیک مومن افراد پر نہیں ہوتی۔رسول اللہ ﷺ نے روح پرواز کرنے سے پہلے کچھ گھبراہٹ محسوس کی لیکن جسم سے روح کی جُدائی اس قدر غیر محسوس طریقے پر عمل میں آئی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو احسان تب ہوا جب روح اقدس عالم بالا میں پرواز کرچکی تھی۔3۔رسول اللہ ﷺ شدت ضعف کی وجہ سے پیشاب کی حاجت کےلئے بستر سے اترنے میں مشکل محسوس کررہے تھےاس لئے برتن طلب فرمایا تاکہ اس حاجت سے فارغ ہو جایئں اور جسم اطہر اور لباس مبارک بھی قطرات سے محفوظ رہیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ کی نظر میں جسمانی طہارت وصفائی کی اہمیت کس قدر زیادہ تھی۔4۔نبی کریمﷺ نے برتن طلب فرمایا لیکن یہ حاجت پوری کرنے کی نوبت نہ آئی۔اس سے علم غیب کے عقیدے کی نفی ہوتی ہے۔اگر نبی کریمﷺ کوعلم ہوتا کہ برتن کے استعمال کی ضرورت محسوس پڑے گی تو طلب نہ فرماتے۔