كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ مَا جَاءَ فِي ذِكْرِ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِﷺ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ زَكَرِيَّا عَنْ فِرَاسٍ عَنْ عَامِرٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ اجْتَمَعْنَ نِسَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ تُغَادِرْ مِنْهُنَّ امْرَأَةٌ فَجَاءَتْ فَاطِمَةُ كَأَنَّ مِشْيَتَهَا مِشْيَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَرْحَبًا بِابْنَتِي ثُمَّ أَجْلَسَهَا عَنْ شِمَالِهِ ثُمَّ إِنَّهُ أَسَرَّ إِلَيْهَا حَدِيثًا فَبَكَتْ فَاطِمَةُ ثُمَّ إِنَّهُ سَارَّهَا فَضَحِكَتْ أَيْضًا فَقُلْتُ لَهَا مَا يُبْكِيكِ قَالَتْ مَا كُنْتُ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ فَرَحًا أَقْرَبَ مِنْ حُزْنٍ فَقُلْتُ لَهَا حِينَ بَكَتْ أَخَصَّكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَدِيثٍ دُونَنَا ثُمَّ تَبْكِينَ وَسَأَلْتُهَا عَمَّا قَالَ فَقَالَتْ مَا كُنْتُ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا قُبِضَ سَأَلْتُهَا عَمَّا قَالَ فَقَالَتْ إِنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُنِي أَنَّ جِبْرَائِيلَ كَانَ يُعَارِضُهُ بِالْقُرْآنِ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَّةً وَأَنَّهُ عَارَضَهُ بِهِ الْعَامَ مَرَّتَيْنِ وَلَا أُرَانِي إِلَّا قَدْ حَضَرَ أَجَلِي وَأَنَّكِ أَوَّلُ أَهْلِي لُحُوقًا بِي وَنِعْمَ السَّلَفُ أَنَا لَكِ فَبَكَيْتُ ثُمَّ إِنَّهُ سَارَّنِي فَقَالَ أَلَا تَرْضَيْنَ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ أَوْ نِسَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ فَضَحِكْتُ لِذَلِكَ
کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
باب: رسول اللہ ﷺ کے مرض وفات کا بیان
ام المومنین عائشہ ؓا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: (ایک بار) نبی ﷺ کی ازواج مطہرات ؓن (ایک جگہ) جمع تھیں۔ ان میں سے کوئی بھی غیر حاضر نہ تھی۔ (اتنے میں) فاطمہ ؓا تشریف لے آئیں، ان کی چال رسول اللہ ﷺ کی چال سے انتہائی مشابہ تھی ۔نبی ﷺ نے فرمایا: ’’میری بیٹی کو خوش آمدید۔‘‘ پھر انہیں اپنی بائیں طرف بٹھالیا اور چپکے سے انہیں کوئی بات بتائی تو فاطمہ ؓا رونے لگیں۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں پھر چپکے سے کوئی بات بتائی تو وہ ہنس پڑیں۔ میں نے ان سے کہا: آپ رو کیوں رہی تھیں؟ انہوں نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کا راز ظاہر نہیں کر سکتی۔ میں نے کہا: میں نے کبھی اس طرح غم کے فوراً بعد خوشی حاصل ہوتے نہیں دیکھی جب وہ روئی تھیں، تو میں نے ان سے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ہم سب کو چھوڑ کر آپ سے خاص طور پر بات کی ہے( یہ تو ایک شرف اور خوشی کی بات ہے) پھر بھی آپ رو رہی ہیں؟ میں نے ان سے پوچھا کہ نبی ﷺ نے کیا فرمایا تھا۔ انہوں نے کہا: میں اللہ کے رسول ﷺ کا راز ظاہر نہیں کر سکتی۔ جب نبی ﷺ کی وفات ہوگئی تو اس کے بعد( کسی مناسب موقع پر) میں نے اس سے(پھر) پوچھا لیا کہ آپ ﷺ نے کیا فرمایا تھا۔ فاطمہ ؓا نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ مجھے بتا رہے تھے کہ جبریل ﷺ آپ ﷺ کے ساتھ ہر سال ایک بار قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے اس سال دو بار دور کیا ہے( اور آپ ﷺ نے فرمایا:) ’’میرا یہی خیال ہے کہ میرا وقت قریب آگیا ہے اور میرے گھرانے میں سب سے پہلے تم مجھ سے ملو گی اور میں تمہارا بہتر پیش رو ہوں۔ ‘‘ (یہ سن کر) مجھے رونا آگیا، پھر نبی ﷺ نے مجھ سے سر گوشی میں فرمایا: ’’کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تم مومنوں کی عورتوں کی سردار ہو؟ یا فرمایا: کہ تم اس امت کی عورتوں کی سردار ہو؟ ‘‘ اس( خوشخبری) کی وجہ سے مجھے ہنسی آگئی۔
تشریح :
1۔یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کے مرض وفات کے دوران میں پیش آیا جب تمام امہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھیں۔مولانا صفی الرحمٰن مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ نے الرحیق المختوم میں اس حیات مبارکہ کے آخری دن کا واقعہ قرا ردیا ہے۔اور فرمایا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ آخری دن نہیں بلکہ آخری ہفتے میں کسی دن پیش آیا تھا۔واللہ اعلم دیکھئے۔(الرحیق المختوم اردو طبع مکتبہ سلفیہ ص 628)اس حدیث میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شرف اور فضیلت کا اظہار ہے جنھیں رسول اللہ ﷺ نے خاص راز عطا فرمایا۔3۔راز کے طور پر بتائی ہوئی بات ظاہر کرنا مناسب نہیں کیونکہ راز ایک امانت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور امانت میں خیانت کرنا حرام ہے۔4۔رسول اللہ ﷺ کا حضرت فاطمہ کو مستقبل کی خبر دینا اور واقعات کا اسی طرح پیش آنا آپ ﷺ کی نبوت ورسالت کی دلیل ہے۔رسول اللہﷺ نے جس قدر پیش گویئاں فرمائی ہیں۔وہ سب کی سب اسی طرح بعینہ پوری ہویئں ہیں۔جس طرح فرمائی گئی تھیں۔جن پیش گویئوں کے ابھی پورا ہونے کاوقت نہیں آیا۔ان کے بارے میں بھی ہمارا ایمان ہے کہ وہ ضرور پوری ہوں گی۔5۔حفاظ کرام کا آپس میں دور کرنا اور بالخصوص رمضان المبارک میں اس کا اہتمام کرنا سنت نبوی ﷺ ہے۔6۔عمر کے آخری حصے میں نیکی کے کاموں کا اہتما م زیاہ ہونا چاہیے۔7۔دوست احباب اور اقارب کے لئے اگر کسی خوش کن خبر کا علم ہوتو انھیں خوش خبری دینی چاہیے۔
1۔یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کے مرض وفات کے دوران میں پیش آیا جب تمام امہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھیں۔مولانا صفی الرحمٰن مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ نے الرحیق المختوم میں اس حیات مبارکہ کے آخری دن کا واقعہ قرا ردیا ہے۔اور فرمایا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ آخری دن نہیں بلکہ آخری ہفتے میں کسی دن پیش آیا تھا۔واللہ اعلم دیکھئے۔(الرحیق المختوم اردو طبع مکتبہ سلفیہ ص 628)اس حدیث میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شرف اور فضیلت کا اظہار ہے جنھیں رسول اللہ ﷺ نے خاص راز عطا فرمایا۔3۔راز کے طور پر بتائی ہوئی بات ظاہر کرنا مناسب نہیں کیونکہ راز ایک امانت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور امانت میں خیانت کرنا حرام ہے۔4۔رسول اللہ ﷺ کا حضرت فاطمہ کو مستقبل کی خبر دینا اور واقعات کا اسی طرح پیش آنا آپ ﷺ کی نبوت ورسالت کی دلیل ہے۔رسول اللہﷺ نے جس قدر پیش گویئاں فرمائی ہیں۔وہ سب کی سب اسی طرح بعینہ پوری ہویئں ہیں۔جس طرح فرمائی گئی تھیں۔جن پیش گویئوں کے ابھی پورا ہونے کاوقت نہیں آیا۔ان کے بارے میں بھی ہمارا ایمان ہے کہ وہ ضرور پوری ہوں گی۔5۔حفاظ کرام کا آپس میں دور کرنا اور بالخصوص رمضان المبارک میں اس کا اہتمام کرنا سنت نبوی ﷺ ہے۔6۔عمر کے آخری حصے میں نیکی کے کاموں کا اہتما م زیاہ ہونا چاہیے۔7۔دوست احباب اور اقارب کے لئے اگر کسی خوش کن خبر کا علم ہوتو انھیں خوش خبری دینی چاہیے۔