Book - حدیث 1620

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ مَا جَاءَ فِي ذِكْرِ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِﷺ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ الْعُثْمَانِيُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَا مِنْ نَبِيٍّ يَمْرَضُ إِلَّا خُيِّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ قَالَتْ فَلَمَّا كَانَ مَرَضُهُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ أَخَذَتْهُ بُحَّةٌ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ فَعَلِمْتُ أَنَّهُ خُيِّرَ

ترجمہ Book - حدیث 1620

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب: رسول اللہ ﷺ کے مرض وفات کا بیان عائشہ ؓا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فر رہے تھے: ’’جو بھی نبی بیمار ہوتا ہے، اسے دنیا اور آخرت میں سے ایک چیز کے انتخاب کا اختیار دیا جاتا ہے۔‘‘ ام المومنین ؓا نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ پر وہ بیماری آئی جس میں آپ کی وفات ہوئی (اس دوران میں ایک دفعہ)نبی ﷺ کی آواز بھاری ہوگئی۔ میں نے سنا تو آپ فر رہے تھے( مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ) ’’ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعامات نازل کیے ہیں ، نبیوں ،صدیقوں، شہیدوں اور نیک لوگوں میں سے۔‘‘ تب مجھے یقین ہوگیا کہ نبی ﷺ کو وہ اختیار دے دیا گیا ہے۔
تشریح : 1۔نبیوں علیہ السلام کو دنیا میں رہنے یا اللہ کے پاس جانے کااختیار دیا جانا انکے مقام ومرتبہ اور شرف منزلت کے اظہار کے لئے ہے۔لیکن انبیائے کرام رضا بالقضا کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہوتے ہیں۔اس لئے وہ دنیا کے مقابلے میں آخرت ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔اسی طرح ان کی وفات بھی اسی وقت پرہوتی ہے۔جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مقرر کر رکھا ہوتا ہے۔اس مقررہ وقت میں تقدیم وتاخیر نہیں ہوتی۔2۔اس بیماری سے مراد مرض وفات ہے۔ہر بیماری کے موقع پر اختیار دیا جانا مراد نہیں۔3۔اس موقع پر نبی اکرمﷺ جو آیت مبارکہ تلاوت فرمائی اس سے ارشاد مبارک (الحقني بالرفيق الاعليٰ)کی وضاحت ہوگئی۔4۔بندوں کے یہ چار گروہ انعام یافتہ ہیں۔ان میں سے نبوت کامنصب تو محض اللہ کی مشیت کےمطابق اس کے منتخب بندوں کو تفویض ہوا اس میں بندے کی محنت اور کوشش کا کوئی دخل نہیں۔باقی تینوں درجات (صدیق ۔شہید۔صالح)ایسے ہیں کہ بندہ کوشش کرے تو اللہ کی توفیق سے انھیں حاصل کرسکتا ہے۔مومن کو کوشش کرنی چاہیے کہ ان میں سے کوئی درجہ اسے حاصل ہوجائے۔ 1۔نبیوں علیہ السلام کو دنیا میں رہنے یا اللہ کے پاس جانے کااختیار دیا جانا انکے مقام ومرتبہ اور شرف منزلت کے اظہار کے لئے ہے۔لیکن انبیائے کرام رضا بالقضا کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہوتے ہیں۔اس لئے وہ دنیا کے مقابلے میں آخرت ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔اسی طرح ان کی وفات بھی اسی وقت پرہوتی ہے۔جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مقرر کر رکھا ہوتا ہے۔اس مقررہ وقت میں تقدیم وتاخیر نہیں ہوتی۔2۔اس بیماری سے مراد مرض وفات ہے۔ہر بیماری کے موقع پر اختیار دیا جانا مراد نہیں۔3۔اس موقع پر نبی اکرمﷺ جو آیت مبارکہ تلاوت فرمائی اس سے ارشاد مبارک (الحقني بالرفيق الاعليٰ)کی وضاحت ہوگئی۔4۔بندوں کے یہ چار گروہ انعام یافتہ ہیں۔ان میں سے نبوت کامنصب تو محض اللہ کی مشیت کےمطابق اس کے منتخب بندوں کو تفویض ہوا اس میں بندے کی محنت اور کوشش کا کوئی دخل نہیں۔باقی تینوں درجات (صدیق ۔شہید۔صالح)ایسے ہیں کہ بندہ کوشش کرے تو اللہ کی توفیق سے انھیں حاصل کرسکتا ہے۔مومن کو کوشش کرنی چاہیے کہ ان میں سے کوئی درجہ اسے حاصل ہوجائے۔