Book - حدیث 1618

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ مَا جَاءَ فِي ذِكْرِ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِﷺ صحیح حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ فَقُلْتُ أَيْ أُمَّهْ أَخْبِرِينِي عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ اشْتَكَى فَعَلَقَ يَنْفُثُ فَجَعَلْنَا نُشَبِّهُ نَفْثَهُ بِنَفْثَةِ آكِلِ الزَّبِيبِ وَكَانَ يَدُورُ عَلَى نِسَائِهِ فَلَمَّا ثَقُلَ اسْتَأْذَنَهُنَّ أَنْ يَكُونَ فِي بَيْتِ عَائِشَةَ وَأَنْ يَدُرْنَ عَلَيْهِ قَالَتْ فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ وَرِجْلَاهُ تَخُطَّانِ بِالْأَرْضِ أَحَدُهُمَا الْعَبَّاسُ فَحَدَّثْتُ بِهِ ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ أَتَدْرِي مَنْ الرَّجُلُ الَّذِي لَمْ تُسَمِّهِ عَائِشَةُ هُوَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ

ترجمہ Book - حدیث 1618

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب: رسول اللہ ﷺ کے مرض وفات کا بیان عبیداللہ بن عبداللہ بن عقبہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں عائشہ ؓا سے استفسار کرتے ہوئے کہا: امی جان! مجھے اللہ کے رسول ﷺ کے( قریب وفات) مرض کے متعلق بتایئے۔ انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ بیمار ہوگئے۔ آپ پھونک مارنے لگے۔ ہم آپ کی پھونک کو منقیٰ کھانے والے کی پھونک سے تشبیہ دیتے تھے۔ آپ بارے بارے ازواج مطہرات کے ہاں اقامت فرماتے تھے۔ جب آپ زیادہ بیمار ہوگئے تو امہات المومنین سے اجازت طلب کی کہ نبی ﷺ خود عائشہ ؓا کے گھر میں ٹھہرے رہیں اور ازواج مطہرات اپنی اپنی باری پر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتی رہیں۔ ام المومنین ؓا نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ دو آدمیوں کے درمیان( ان کے سہارے سے چلتے ہوئے) میرے گھر میں داخل ہوئے اور ( ضعف کی وجہ سے) آپ کے قدم مبارک زمین پر لکیر بناتے آ رہے تھے۔ ان دو حضرات میں سے ایک عباس ؓ تھے۔ (عبیداللہ بیان کرتے ہیں) میں نے یہ حدیث ابن عباس ؓ کے سامنے بیان کی۔ انہوں نے فرمایا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ دوسرے صاحب کون تھے جن کا عائشہ ؓا نے نام نہیں لیا؟ وہ علی بن ابی طالب ؓ تھے۔
تشریح : 1۔منقیٰ کھانے والے کی پھونک کا مطلب یہ ہے کہ منقیٰ یا ایسی کوئی اور چیز کھانے والا آدمی بیجوں کو منہ سے نکالتا ہے تو اس انداز سے پھینکتا ہے کہ ہاتھ سے مدد لئے بغیر بیج دور چلے جاتے ہیں۔اس پھونک کا مطلب یا تو دعایئں اور سورتیں پڑھ کر بدن پر دم کرنا ہے جیسے کہ پہلے بھی آپ طبعیت کی ناسازی کے موقع پر اپنے آپ کودم کرلیا کرتے تھے۔یا سوتے وقت قرآن مجید کی آخری تین سورتیں پڑھ کر ہاتھوں پر پھونک مار کر پورے جسم پر ہاتھ پیراکرتے تھے۔یا یہ مطلب ہے کہ منقیٰ یا انگور زمین پر گر کر اسے غبار لگ جائے۔تو ہلکی سی پھونک مار کر اسے صاف کرلیاجاتا ہے۔بخار کی شدت کی وجہ سے آپ کو سانس زور سے آرہا تھا۔جیسے کسی چیز پر پھونک ماری جائے۔اس صورت میں ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کامقصد مرض کی شدت کا اظہار ہوگا۔2۔رسول اللہ ﷺ نے مرض کی شدت میں ازواج مطہرات کے درمیان عدل وانصاف اور مساوات کااعلیٰ معیار پیش نظر رکھا تاکہ تمام خواتین مطمئن رہیں۔اور کسی کو یہ احساس نہ ہو کہ اس کے حق کی ادایئگی میں معمولی سی بھی کمی رہ گئی ہے حالانکہ رسول اللہﷺ کےلئے اللہ تعالیٰ نے خصوصی حکم نازل فرمادیا تھا۔چنانچہ نبی کریمﷺ پر اذواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے درمیان باری کا اہتمام فرض نہیں تھا۔دیکھئے(الاحزاب۔51)اس میں ہمارے لئے سبق ہے کہ بیویوں میں یا اولاد میں انصاف کا زیادہ سے زیادہ ممکن حد تک خیال رکھا جائے۔3۔مساوات ہی کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ جب شدت مرض کی وجہ سے نبی کریمﷺ کا روزانہ گھر تبدیل کرنا مشکل ہوگیا ۔تو سب کی اجازت سے ایک گھر میں قیام فرمایا۔اس دوران میں ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو برابر خدمت کاموقع دیا۔4۔اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت کا اظہاار ہے۔کہ ان کے حجرہ شریف کو نبی کریمﷺ کی آرام گاہ بننے کا شرف حاصل ہواور وفات کے بعد آپ وہیں دفن ہوئے۔5۔رسول اللہ ﷺ اللہ کے فضل ترین بندے ہونے کے باوجود ایک انسان ہی تھے۔ااس لئے دوسرے انسانوں کی طرح آپ کا جسم اطہر بھی بیماری سے متاثر ہوا اور جسمانی طور پر اس قدر ضعیف لاحق ہوا کہ بغیر سہارے کے قدم اٹھانا بھی مشکل ہوگیا۔6۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ نبی اکرمﷺ کو سہارا دین ےوالے دوسرے آدمی کا نام نہیں لیا۔بعض لوگوں نے اس کو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ناراضی پر محمول کیا۔یہ ان حضرات کی غلط فہمی ہے کیونکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے درمیان ہونے والی جنگ (جنگ جمل) میں ان دونوں مقدس ہستیوں کاکوئی قصور نہیں تھا بلکہ یہ منافقین کی سازش تھی۔جنگ کے دوران میں جونہی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے جنگ بند ہوگئی۔بعد میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس جنگ میں شرکت کو نہ صرف اپنی غلطی تسلیم کیا بلکہ اس ک کفارہ کے طور پر بار بار غلام آذاد کرتی رہیں۔اس صورت میں یہ تصور کرنا ممکن نہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس لئے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام لینا پسند نہیں کیا۔کہ جنگ جمل میں یہ ان کے مقابل کیوں ہوئے۔اصل بات یہ ہے کہ مذکورہ واقعہ کے دوران میں ایک طرف تو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سہارا دیا تھا۔دوسری طرف تھوڑی دور تک حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور تھوڑی دور تک حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سہارا دیا تھا۔7۔حضرات تابعین رحمۃ اللہ علیہ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کا انتہائی احترام کرتے تھے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت عباسرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ دوسرے آدمی کا نام نہیں لیا۔تو حضرت عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھنے کی جراءت نہیں کی۔کہ اگر ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کسی وجہ سے ان کا ذکر نہیں کرنا چاہتیں تو کوئی بات نہیں کسی اور صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس چیز کا علم ہوجائے۔اس لئے طالب علم کو چاہیے کہ استاد کے جذبات کا زیادہ سے زیادہ احترام کرے۔اگر استاد کسی وقت کسی وجہ سے ایک مسئلہ کی وضاحت نہیں کرنا چاہتا تو اسے مجبور نہ کرے۔پھر کبھی اس کی وضاحت ہوجائےگی۔یا کوئی دوسرا عالم یہ بات بتا دے گا۔ 1۔منقیٰ کھانے والے کی پھونک کا مطلب یہ ہے کہ منقیٰ یا ایسی کوئی اور چیز کھانے والا آدمی بیجوں کو منہ سے نکالتا ہے تو اس انداز سے پھینکتا ہے کہ ہاتھ سے مدد لئے بغیر بیج دور چلے جاتے ہیں۔اس پھونک کا مطلب یا تو دعایئں اور سورتیں پڑھ کر بدن پر دم کرنا ہے جیسے کہ پہلے بھی آپ طبعیت کی ناسازی کے موقع پر اپنے آپ کودم کرلیا کرتے تھے۔یا سوتے وقت قرآن مجید کی آخری تین سورتیں پڑھ کر ہاتھوں پر پھونک مار کر پورے جسم پر ہاتھ پیراکرتے تھے۔یا یہ مطلب ہے کہ منقیٰ یا انگور زمین پر گر کر اسے غبار لگ جائے۔تو ہلکی سی پھونک مار کر اسے صاف کرلیاجاتا ہے۔بخار کی شدت کی وجہ سے آپ کو سانس زور سے آرہا تھا۔جیسے کسی چیز پر پھونک ماری جائے۔اس صورت میں ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کامقصد مرض کی شدت کا اظہار ہوگا۔2۔رسول اللہ ﷺ نے مرض کی شدت میں ازواج مطہرات کے درمیان عدل وانصاف اور مساوات کااعلیٰ معیار پیش نظر رکھا تاکہ تمام خواتین مطمئن رہیں۔اور کسی کو یہ احساس نہ ہو کہ اس کے حق کی ادایئگی میں معمولی سی بھی کمی رہ گئی ہے حالانکہ رسول اللہﷺ کےلئے اللہ تعالیٰ نے خصوصی حکم نازل فرمادیا تھا۔چنانچہ نبی کریمﷺ پر اذواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے درمیان باری کا اہتمام فرض نہیں تھا۔دیکھئے(الاحزاب۔51)اس میں ہمارے لئے سبق ہے کہ بیویوں میں یا اولاد میں انصاف کا زیادہ سے زیادہ ممکن حد تک خیال رکھا جائے۔3۔مساوات ہی کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ جب شدت مرض کی وجہ سے نبی کریمﷺ کا روزانہ گھر تبدیل کرنا مشکل ہوگیا ۔تو سب کی اجازت سے ایک گھر میں قیام فرمایا۔اس دوران میں ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو برابر خدمت کاموقع دیا۔4۔اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت کا اظہاار ہے۔کہ ان کے حجرہ شریف کو نبی کریمﷺ کی آرام گاہ بننے کا شرف حاصل ہواور وفات کے بعد آپ وہیں دفن ہوئے۔5۔رسول اللہ ﷺ اللہ کے فضل ترین بندے ہونے کے باوجود ایک انسان ہی تھے۔ااس لئے دوسرے انسانوں کی طرح آپ کا جسم اطہر بھی بیماری سے متاثر ہوا اور جسمانی طور پر اس قدر ضعیف لاحق ہوا کہ بغیر سہارے کے قدم اٹھانا بھی مشکل ہوگیا۔6۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ نبی اکرمﷺ کو سہارا دین ےوالے دوسرے آدمی کا نام نہیں لیا۔بعض لوگوں نے اس کو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ناراضی پر محمول کیا۔یہ ان حضرات کی غلط فہمی ہے کیونکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے درمیان ہونے والی جنگ (جنگ جمل) میں ان دونوں مقدس ہستیوں کاکوئی قصور نہیں تھا بلکہ یہ منافقین کی سازش تھی۔جنگ کے دوران میں جونہی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے جنگ بند ہوگئی۔بعد میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس جنگ میں شرکت کو نہ صرف اپنی غلطی تسلیم کیا بلکہ اس ک کفارہ کے طور پر بار بار غلام آذاد کرتی رہیں۔اس صورت میں یہ تصور کرنا ممکن نہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس لئے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام لینا پسند نہیں کیا۔کہ جنگ جمل میں یہ ان کے مقابل کیوں ہوئے۔اصل بات یہ ہے کہ مذکورہ واقعہ کے دوران میں ایک طرف تو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سہارا دیا تھا۔دوسری طرف تھوڑی دور تک حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور تھوڑی دور تک حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سہارا دیا تھا۔7۔حضرات تابعین رحمۃ اللہ علیہ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کا انتہائی احترام کرتے تھے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت عباسرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ دوسرے آدمی کا نام نہیں لیا۔تو حضرت عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھنے کی جراءت نہیں کی۔کہ اگر ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کسی وجہ سے ان کا ذکر نہیں کرنا چاہتیں تو کوئی بات نہیں کسی اور صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس چیز کا علم ہوجائے۔اس لئے طالب علم کو چاہیے کہ استاد کے جذبات کا زیادہ سے زیادہ احترام کرے۔اگر استاد کسی وقت کسی وجہ سے ایک مسئلہ کی وضاحت نہیں کرنا چاہتا تو اسے مجبور نہ کرے۔پھر کبھی اس کی وضاحت ہوجائےگی۔یا کوئی دوسرا عالم یہ بات بتا دے گا۔