كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ تَعْظِيمِ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِﷺ وَالتَّغْلِيظِ عَلَى مَنْ عَارَضَهُ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللَّهِ أَنْ يُصَلِّينَ فِي الْمَسْجِدِ فَقَالَ ابْنٌ لَهُ إِنَّا لَنَمْنَعُهُنَّ فَغَضِبَ غَضَبًا شَدِيدًا وَقَالَ أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَقُولُ إِنَّا لَنَمْنَعُهُنَّ
کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت
باب: حدیث رسول ﷺ کی تعظیم اور اس کی مخالفت کرنے والے پر سختی کرنے کا بیان
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:‘‘ اللہ کی بندیوں کو مسجد میں نماز پڑھنے سے منع نہ کرو۔’’ ابن عمر ؓ کے ایک بیٹے نے کہا: ہم تو انہیں منع کریں گے۔سالم ؓ بیان فرماتے ہیں کہ ابن عمر ؓ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا: میں تجھے اللہ کے رسولﷺ کی حدیث سناتا ہوں اور تو کہتا ہے ہم تو منع کریں گے ۔
تشریح :
(1) عورتوں کو نماز جماعت ادا کرنے کے لیے مسجد میں جانا جائز ہے۔ تاہم گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے۔ (2) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ناراضی ذاتی وجوہات کی بنا پر نہیں ہوتی تھی، لیکن کوئی غلط کام کرتے ہوتے دیکھ کر یا غلط بات سن کر وہ برداشت نہیں کرتے تھے۔ البتہ غلط کام سے روکنے کے لیے موقع محل کی مناسبت سے مناسب طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ (3) جہاں زجرو توبیخ کے زیادہ مؤثر ہونے کی امید ہو وہاں یہ طریقہ اختیار کرنا بھی جائز ہے۔ (4) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے جناب بلال رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ارشاد نبوی کی تعمیل سے انکار نہیں تھا، بلکہ مقصد یہ تھا کہ آج کل عورتیں گھر سے نکلتے ہوئے ضرروی آداب کا کما حقہ خیال نہیں رکھتیں، اس لیے انہیں اجازت نہیں دینی چاہیے، لیکن ان کے الفاظ چونکہ ظاہری طور پر نامناسب تھے، اس لیے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے انتہائی ناراضی کا اظہار فرمایا۔ مسند احمد کی روایت (2/36) میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب تک زندہ رہے ان سے بات تک نہ کی۔
(1) عورتوں کو نماز جماعت ادا کرنے کے لیے مسجد میں جانا جائز ہے۔ تاہم گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے۔ (2) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ناراضی ذاتی وجوہات کی بنا پر نہیں ہوتی تھی، لیکن کوئی غلط کام کرتے ہوتے دیکھ کر یا غلط بات سن کر وہ برداشت نہیں کرتے تھے۔ البتہ غلط کام سے روکنے کے لیے موقع محل کی مناسبت سے مناسب طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ (3) جہاں زجرو توبیخ کے زیادہ مؤثر ہونے کی امید ہو وہاں یہ طریقہ اختیار کرنا بھی جائز ہے۔ (4) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے جناب بلال رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ارشاد نبوی کی تعمیل سے انکار نہیں تھا، بلکہ مقصد یہ تھا کہ آج کل عورتیں گھر سے نکلتے ہوئے ضرروی آداب کا کما حقہ خیال نہیں رکھتیں، اس لیے انہیں اجازت نہیں دینی چاہیے، لیکن ان کے الفاظ چونکہ ظاہری طور پر نامناسب تھے، اس لیے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے انتہائی ناراضی کا اظہار فرمایا۔ مسند احمد کی روایت (2/36) میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب تک زندہ رہے ان سے بات تک نہ کی۔