Book - حدیث 1598

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ مَا جَاءَ فِي الصَّبْرِ عَلَى الْمُصِيبَةِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ قُدَامَةَ الْجُمَحِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ، حَدَّثَهَا أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصَابُ بِمُصِيبَةٍ، فَيَفْزَعُ إِلَى مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ مِنْ قَوْلِهِ: {إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ} [البقرة: 156] اللَّهُمَّ عِنْدَكَ احْتَسَبْتُ مُصِيبَتِي، فَأْجُرْنِي فِيهَا، وَعَوِّضْنِي مِنْهَا - إِلَّا آجَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهَا، وَعَاضَهُ خَيْرًا مِنْهَا قَالَتْ: فَلَمَّا تُوُفِّيَ أَبُو سَلَمَةَ ذَكَرْتُ الَّذِي حَدَّثَنِي عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، اللَّهُمَّ عِنْدَكَ احْتَسَبْتُ مُصِيبَتِي هَذِهِ، فَأْجُرْنِي عَلَيْهَا، فَإِذَا أَرَدْتُ أَنْ أَقُولَ: وَعِضْنِي خَيْرًا مِنْهَا، قُلْتُ فِي نَفْسِي: أُعَاضُ خَيْرًا مِنْ أَبِي سَلَمَةَ؟ ثُمَّ قُلْتُهَا، فَعَاضَنِي اللَّهُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَآجَرَنِي فِي مُصِيبَتِي

ترجمہ Book - حدیث 1598

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب : مصیبت پر صبر کرنے کا بیان ام المومنین ام سلمہ ؓا سے روایت ہے انہیں ابو سلمہ ؓ نے حدیث سنائی کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے: ’’جس مسلمان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے اور وہ اس پریشانی میں اللہ کے حکم ( کی تعمیل) کا سہارا لیتا ہے، یعنی کہتا ہے:( إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اللَّهُمَّ عِنْدَكَ احْتَسَبْتُ مُصِيبَتِى فَأْجُرْنِى فِيهَا وَعُضْنِى مِنْهَا ) ’’ہم اللہ کے ہیں اور اسی کی طرف واپس جانے والے ہیں۔ اے اللہ! میں تجھ سے اپنی مصیبت (پر صبر) کا ثواب چاہتا ہوں، مجھے اس کا اجرو ثواب عطا فر اور اس کا بدل عطا فرما۔‘‘ اللہ تعالیٰ اس ( مسلمان) کو اس ( مصیبت پر صبر) کا ثواب عنایت فرماتا ہے اور اسے اس (چھن جانے والے نعمت) سے بہتر متبادل عطا فرماتا ہے۔ ام المومنین ؓا نے فرمایا: جب ابو سلمہ ؓ فوت ہوگئے تو مجھے وہ حدیث یاد آئی جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سن کر مجھے سنائی تھی۔ تب میں نے کہا: ’ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اللَّهُمَّ عِنْدَكَ احْتَسَبْتُ مُصِيبَتِى فَأْجُرْنِى فِيهَا وَعُضْنِى مِنْهَا ) ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف واپس جانے والے ہیں۔ اے اللہ! میں تجھ سے اپنی اس مصیبت (پر صبر) کا ثواب چاہتی ہوں۔ تو مجھے اس کا اجرو ثواب عطا فرما۔‘‘ جب میں نے یہ کہنا چاہا(وَعُضْنِى خَيْرًا مِنْهَا) ’’مجھے اس کا بہتر متبادل عطا فرما‘‘ تو میں نے دل میں سوچا: کیا مجھے ابو سلمہ ؓ سے بہتر متبادل بھی مل سکتا ہے؟ پھر میں نے ( دعا کے) یہ الفاظ بھی پڑھ دیے( اور حدیث کی تعمیل میں یہ دعا مانگ ہی لی) تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ابو سلمہ کے بدلے محمد ﷺ دے دیے اور میری مصیبت کا اجر بھی عطا فر دیا۔
تشریح : 1۔مصیبت پر صبر کاثواب آخرت میں بھی ملتا ہے۔اور دنیا میں بھی صبر کی وجہ سے اللہ کی نعمت حاصل ہوتی ہے۔2۔اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے جس حکم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔اس سے مراد قرآن مجید میں اللہ کایہ فرمان ہے۔( وَبَشِّرِ ٱلصَّـٰبِرِينَ ﴿١٥٥﴾ ٱلَّذِينَ إِذَآ أَصَـٰبَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوٓا۟ إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّآ إِلَيْهِ رَٰجِعُونَ ﴿١٥٦﴾أُو۟لَـٰٓئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَٰتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُهْتَدُونَ)(البقرہ۔155۔157) اور ان صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دیجئے۔جنھیں جب کوئی مصیبت آتی ہے۔ تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں۔اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ 3۔اس سے صحابہ کرامرضوان للہ عنہم اجمعین کے ایمان کا کمال ظاہر ہوتا ہے۔کہ بظاہر اس دعا کی قبولیت کا امکان نہیں تھا۔لیکن پھر بھی ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمان نبوی ﷺ کی تعمیل کرتے ہوئے دعا کی اور ارشاد نبوی کو حق سچ جانا۔4۔جو لوگ اللہ کے وعدوں پر ایمان رکھتے ہیں۔اللہ ان کی حاجتیں پوری فرماتا ہے۔اور اپنے وعدے پورے کرتاہے۔ 1۔مصیبت پر صبر کاثواب آخرت میں بھی ملتا ہے۔اور دنیا میں بھی صبر کی وجہ سے اللہ کی نعمت حاصل ہوتی ہے۔2۔اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے جس حکم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔اس سے مراد قرآن مجید میں اللہ کایہ فرمان ہے۔( وَبَشِّرِ ٱلصَّـٰبِرِينَ ﴿١٥٥﴾ ٱلَّذِينَ إِذَآ أَصَـٰبَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوٓا۟ إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّآ إِلَيْهِ رَٰجِعُونَ ﴿١٥٦﴾أُو۟لَـٰٓئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَٰتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُهْتَدُونَ)(البقرہ۔155۔157) اور ان صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دیجئے۔جنھیں جب کوئی مصیبت آتی ہے۔ تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں۔اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ 3۔اس سے صحابہ کرامرضوان للہ عنہم اجمعین کے ایمان کا کمال ظاہر ہوتا ہے۔کہ بظاہر اس دعا کی قبولیت کا امکان نہیں تھا۔لیکن پھر بھی ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمان نبوی ﷺ کی تعمیل کرتے ہوئے دعا کی اور ارشاد نبوی کو حق سچ جانا۔4۔جو لوگ اللہ کے وعدوں پر ایمان رکھتے ہیں۔اللہ ان کی حاجتیں پوری فرماتا ہے۔اور اپنے وعدے پورے کرتاہے۔