Book - حدیث 1595

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ مَا جَاءَ فِي الْمَيِّتِ يُعَذَّبُ بِمَا نِيحَ عَلَيْهِ صحیح حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ إِنَّمَا كَانَتْ يَهُودِيَّةٌ مَاتَتْ، فَسَمِعَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْكُونَ عَلَيْهَا، قَالَ: «فَإِنَّ أَهْلَهَا يَبْكُونَ عَلَيْهَا، وَإِنَّهَا تُعَذَّبُ فِي قَبْرِهَا»

ترجمہ Book - حدیث 1595

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب : نوحہ کرنے سے میت کو عذاب ہوتا ہے عائشہ ؓا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک یہودی عورت مرگئی، نبی ﷺ نے ان لوگوں کو اس پر روتے ہوئے سنا تو فرمایا: ’’اس کے گھر والے اس پر روہے رہیں اور اسے قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔‘‘
تشریح : حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ پس ماندگان کے رونے سے میت کو عذاب نہیں ہوتا۔کیونکہ ایک کے عمل کی سزا دوسرے کو نہیں دی جاسکتی۔رسول اللہ ﷺنے یہ بات ایک قانون کے طور پر نہیں فرمائی تھی۔کہ ہر رونے والے کی وجہ سے میت کو عذاب ہوتا ہے۔بلکہ یہودیوں کو اپنے مرنے والی پر روتے دیکھ کر فرمایا تھا کہ ان کے رونے کا اسے کیا فائدہ؟وہ تو اپنے گناہوں کی سزا بھگت ہی رہی ہے۔یہ رویئں یا نہ رویئں برابر ہے۔ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ رائے اپنی جگہ درست ہے کہ رونے پیٹنے کا میت کو کیا فائدہ؟تاہم حدیث کا وہ مفہوم زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔کہ ان کے رونے سے بھی اسے عذاب ہوتا ہے۔جبکہ وہ اپن زندگی میں اسے اچھا سمجھتا رہا ہواس کی تلقین کرتا رہا ہو یا ا س کی وصیت کی ہو اگر یہ صورت حال نہ ہو تو پھر ان کے رونے پیٹنے اور بین کرنے سے اسے افسوس تو ہوتا ہے۔کہ جو موقع عبرت حاصل کرنے کا تھا۔اس موقع پر بھی وہ گناہ میں ملوث ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ فرماتے ہیں۔(باب قول النبي صلي الله عليه وسلم يعذب الميت ببعض بكاء اهله عليه ...اذا كان النوح من سنته.......)(صحیح البخاری الجنائز باب 32) نبی ﷺ کے اس فرمان کا بیان ک میت کو اس کے بعض گھر والوں کے بعض رونے سے عذاب ہوتا ہے۔یعنی جب رونا پیٹنا اس (کے خاندان) کی رسم ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ پس ماندگان کے رونے سے میت کو عذاب نہیں ہوتا۔کیونکہ ایک کے عمل کی سزا دوسرے کو نہیں دی جاسکتی۔رسول اللہ ﷺنے یہ بات ایک قانون کے طور پر نہیں فرمائی تھی۔کہ ہر رونے والے کی وجہ سے میت کو عذاب ہوتا ہے۔بلکہ یہودیوں کو اپنے مرنے والی پر روتے دیکھ کر فرمایا تھا کہ ان کے رونے کا اسے کیا فائدہ؟وہ تو اپنے گناہوں کی سزا بھگت ہی رہی ہے۔یہ رویئں یا نہ رویئں برابر ہے۔ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ رائے اپنی جگہ درست ہے کہ رونے پیٹنے کا میت کو کیا فائدہ؟تاہم حدیث کا وہ مفہوم زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔کہ ان کے رونے سے بھی اسے عذاب ہوتا ہے۔جبکہ وہ اپن زندگی میں اسے اچھا سمجھتا رہا ہواس کی تلقین کرتا رہا ہو یا ا س کی وصیت کی ہو اگر یہ صورت حال نہ ہو تو پھر ان کے رونے پیٹنے اور بین کرنے سے اسے افسوس تو ہوتا ہے۔کہ جو موقع عبرت حاصل کرنے کا تھا۔اس موقع پر بھی وہ گناہ میں ملوث ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ فرماتے ہیں۔(باب قول النبي صلي الله عليه وسلم يعذب الميت ببعض بكاء اهله عليه ...اذا كان النوح من سنته.......)(صحیح البخاری الجنائز باب 32) نبی ﷺ کے اس فرمان کا بیان ک میت کو اس کے بعض گھر والوں کے بعض رونے سے عذاب ہوتا ہے۔یعنی جب رونا پیٹنا اس (کے خاندان) کی رسم ہو۔