Book - حدیث 1594

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ مَا جَاءَ فِي الْمَيِّتِ يُعَذَّبُ بِمَا نِيحَ عَلَيْهِ حسن حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الدَّرَاوَرْدِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَسِيدُ بْنُ أَبِي أَسِيدٍ، عَنْ مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ، إِذَا قَالُوا: وَاعَضُدَاهُ، وَاكَاسِيَاهُ، وَانَاصِرَاهُ، وَاجَبَلَاهُ، وَنَحْوَ هَذَا، يُتَعْتَعُ وَيُقَالُ: «أَنْتَ كَذَلِكَ؟ أَنْتَ كَذَلِكَ؟» قَالَ أَسِيدٌ: فَقُلْتُ سُبْحَانَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: {وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى} [الأنعام: 164] قَالَ: وَيْحَكَ أُحَدِّثُكَ أَنَّ أَبَا مُوسَى حَدَّثَنِي عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَرَى أَنَّ أَبَا مُوسَى كَذَبَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ أَوْ تَرَى أَنِّي كَذَبْتُ عَلَى أَبِي مُوسَى

ترجمہ Book - حدیث 1594

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب : نوحہ کرنے سے میت کو عذاب ہوتا ہے اسید بن ابو اسید ؓ نے موسیٰ بن ابو موسیٰ اشعری ؓ سے ، انہوں نے اپنے والد( ابو موسیٰ اشعری ؓ) سے روایت کی کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’زندہ کے رونے سے فوت شدہ کو عذاب ہوتا ہے، جب وہ (رونے والے) کہتےہیں: ہائے میرا بازو! ہائے مجھے لباس دینے والا! ہائے میری مدد کرنے والا! ہائے وہ پہاڑ( جیسی عظیم شخصیت) اور اس طرح کے الفاظ کہتے ہیں تو اسے جھڑکا اور جھنجھوڑا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے :’’کیا تو ( واقعی ) ایسا ہی ہے؟ کیا تو ایسا ہی ہے؟‘‘ اسید ؓ نے فرمایا: میں نے کہا: سبحان اللہ ! اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے:(وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ) ’’کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘ موسیٰ ؓ نے فرمایا: تیرا بھلا ہو! میں تجھے یہ بتا رہا ہوں کہ ابو موسیٰ ؓ نے مجھے اللہ کے رسول ﷺ کی یہ حدیث سنائی ہے( لیکن تجھے یقین نہیں آتا) کیا تیرا خیال ہے کہ ابو موسیٰ ؓ نے نبی ﷺ پر جھوٹ باندھا ہے؟ یا تیرا یہ خیال ہے کہ میں نے ابو موسیٰ ؓ پر جھوٹ باندھنا ہے؟
تشریح : 1۔اس حدیث سے اس عذاب کی وضاحت ہوگئی ہے۔جو رونے والوں کی وجہ سے مرنے والوں کوہوتا ہے۔اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اس حدیث میں رونے سے مراد محض آنسو بہانا نہیں بلکہ زبان سے نا مناسب الفاظ نکالنا میت کے عذاب کا باعث بنتا ہے۔2۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے شاگرد کے اشکال کے جواب میں سند کی صحت کی طرف توجہ دلائی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحیح حدیث کبھی قرآن مجید کے خلاف نہیں ہوتی۔البتہ بعض اوقات ظاہری طور پر اختلاف محسوس ہوتا ہے۔ایسے موقع پر آیت اور حدیث میں اسی طرح موافقت پیدا کی جاتی ہے۔ جس طرح قرآن مجید کی د و آیات اگر باہم متعارض محسوس ہوں تو علمائے کرام انکے اس انداز سے وضاحت فرمادیتے ہیں۔ کہ دونوں میں اختلاف نہیں رہتا۔3۔قرآن مجید کی آیت کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو اس بات پر گھمنڈ نہیں کرناچاہیے۔ کہ میرے آباواجداد میں سے فلاں صاحب بزرگ او رنیک آدمی تھے۔لہذا قیامت میں بھی مجھے نجات مل جائے گی۔اور نہ کسی کو اس کی وجہ سے حقیر سمجھناچاہیے۔کہ اس کے باپ دادا نیک نہیں تھے۔بلکہ جو شخص نیک اعمال کرتا ہے اسے ثواب ملے گا۔اور جو گناہ کرتا ہے اُسے عذاب ہوگا۔4۔جو شخص کسی کو نیکی کی طرف بلاتا ہے۔تو نیکی کرنے والے کے برابر اسے بھی ثواب ملتا ہے۔یہ ایک شخص کے عمل کا ثواب دوسرے کو نہیں ملا۔بلکہ یہ خود اس کے اس عمل کا ثواب ہے۔جو کہ اس نے نیکی کی ترغیب دی تھی۔اس ترغیب کا ثواب دوسرے کے عمل کرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلاجاتا ہے۔اسی طرح گناہ کی ترغیب دینے کی وجہ سے سزا میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔قرآن مجید کی آیت اس حققیت کی تردید نہیں کرتی۔ 1۔اس حدیث سے اس عذاب کی وضاحت ہوگئی ہے۔جو رونے والوں کی وجہ سے مرنے والوں کوہوتا ہے۔اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اس حدیث میں رونے سے مراد محض آنسو بہانا نہیں بلکہ زبان سے نا مناسب الفاظ نکالنا میت کے عذاب کا باعث بنتا ہے۔2۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے شاگرد کے اشکال کے جواب میں سند کی صحت کی طرف توجہ دلائی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحیح حدیث کبھی قرآن مجید کے خلاف نہیں ہوتی۔البتہ بعض اوقات ظاہری طور پر اختلاف محسوس ہوتا ہے۔ایسے موقع پر آیت اور حدیث میں اسی طرح موافقت پیدا کی جاتی ہے۔ جس طرح قرآن مجید کی د و آیات اگر باہم متعارض محسوس ہوں تو علمائے کرام انکے اس انداز سے وضاحت فرمادیتے ہیں۔ کہ دونوں میں اختلاف نہیں رہتا۔3۔قرآن مجید کی آیت کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو اس بات پر گھمنڈ نہیں کرناچاہیے۔ کہ میرے آباواجداد میں سے فلاں صاحب بزرگ او رنیک آدمی تھے۔لہذا قیامت میں بھی مجھے نجات مل جائے گی۔اور نہ کسی کو اس کی وجہ سے حقیر سمجھناچاہیے۔کہ اس کے باپ دادا نیک نہیں تھے۔بلکہ جو شخص نیک اعمال کرتا ہے اسے ثواب ملے گا۔اور جو گناہ کرتا ہے اُسے عذاب ہوگا۔4۔جو شخص کسی کو نیکی کی طرف بلاتا ہے۔تو نیکی کرنے والے کے برابر اسے بھی ثواب ملتا ہے۔یہ ایک شخص کے عمل کا ثواب دوسرے کو نہیں ملا۔بلکہ یہ خود اس کے اس عمل کا ثواب ہے۔جو کہ اس نے نیکی کی ترغیب دی تھی۔اس ترغیب کا ثواب دوسرے کے عمل کرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلاجاتا ہے۔اسی طرح گناہ کی ترغیب دینے کی وجہ سے سزا میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔قرآن مجید کی آیت اس حققیت کی تردید نہیں کرتی۔