Book - حدیث 1591

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ مَا جَاءَ فِي الْبُكَاءِ عَلَى الْمَيِّتِ حسن صحیح حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْمِصْرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَنْبَأَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِنِسَاءِ عَبْدِ الْأَشْهَلِ، يَبْكِينَ هَلْكَاهُنَّ يَوْمَ أُحُدٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَكِنَّ حَمْزَةَ لَا بَوَاكِيَ لَهُ» فَجَاءَ نِسَاءُ الْأَنْصَارِ يَبْكِينَ حَمْزَةَ، فَاسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «وَيْحَهُنَّ مَا انْقَلَبْنَ بَعْدُ؟ مُرُوهُنَّ فَلْيَنْقَلِبْنَ، وَلَا يَبْكِينَ عَلَى هَالِكٍ بَعْدَ الْيَوْمِ»

ترجمہ Book - حدیث 1591

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب : میت پر رونے کا بیان عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ قبیلہ بنو عبدالاشہل کی عورتوں کے پاس سے گزرے ، وہ جنگ احد میں ہلاک ہونے والے اپنے اقارب پر روہی رہی تھیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’لیکن حمزہ(ؓ) پر رونے والیاں کوئی نہیں۔ ‘‘ (یہ سن کر) انصار کی خواتین آکر حمزہ ؓ پر رونے لگیں۔ رسول اللہ ﷺ بیدار ہوئے تو فرمایا: افسوس! یہ ابھی واپس نہیں گئیں۔ انہیں حکم دو کہ واپس چلی جائیں اور آج کے بعد کسی معنے والے پر نہ روئیں۔ ‘‘
تشریح : 1۔حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ احد میں شہید ہوگئے۔ان کے گھرانے کی خواتین ابھی ہجرت کرکے مدینے نہیں آئیں تھیں۔اس لئے نبی کریمﷺ نے اظہار ترحم کے لئے فرمایا حمزہ پر رونے والا کوئی نہیں اس کامقصد رونے والیوں کے عمل کی تعریف کرنا نہیں تھا بلکہ ان کی بے کسی کا اظہار تھا۔کہ اس موقع پر ان کے اہل خانہ بھی موجود نہیں ہیں۔جن کو فطری طور پر سب سے زیادہ صدمہ ہوتا ہے۔2۔صحابہ کرامرضوان للہ عنہم اجمعین رسول اللہ ﷺ کے اشاروں پر فدا ہونے والے تھے۔یہ ان کی محبت کا کمال تھا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ایسی بات فرمائی جس سے انھیں محسوس ہوا کہ رسول اللہ ﷺ چاہتے ہیں۔کہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے رویاجائے۔تو ان کی خواتین فوراً تیار ہوکر آگیئں۔کیونکہ ان کے لئے نبی اکرمﷺ کا دلگیر ہونا اپنے غم وحزن سے زیادہ تکلیف دہ تھا اس لئے انھوں نے اس غم کی وجہ سے آواز سے رونا شروع کردیا۔3۔رسول اللہ ﷺ نے واضح فرمادیا کہ میرا مقصد یہ نہیں تھا۔ اس لئے ان خواتین کو واپس چلے جانے کا حکم دے دیا۔4۔میت کے گھر جمع ہوکر رونا پیٹنا اور نوحہ کرنا منع ہے۔بلکہ نوحہ کے بغیر بھی میت والوں کے گھر جمع ہونا منع ہے۔دیکھئے۔(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1612) جو شخص تعزیت کے لئے آئے تو وہ شخص تعزیت کرکے چلا جائے۔ 1۔حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ احد میں شہید ہوگئے۔ان کے گھرانے کی خواتین ابھی ہجرت کرکے مدینے نہیں آئیں تھیں۔اس لئے نبی کریمﷺ نے اظہار ترحم کے لئے فرمایا حمزہ پر رونے والا کوئی نہیں اس کامقصد رونے والیوں کے عمل کی تعریف کرنا نہیں تھا بلکہ ان کی بے کسی کا اظہار تھا۔کہ اس موقع پر ان کے اہل خانہ بھی موجود نہیں ہیں۔جن کو فطری طور پر سب سے زیادہ صدمہ ہوتا ہے۔2۔صحابہ کرامرضوان للہ عنہم اجمعین رسول اللہ ﷺ کے اشاروں پر فدا ہونے والے تھے۔یہ ان کی محبت کا کمال تھا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ایسی بات فرمائی جس سے انھیں محسوس ہوا کہ رسول اللہ ﷺ چاہتے ہیں۔کہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے رویاجائے۔تو ان کی خواتین فوراً تیار ہوکر آگیئں۔کیونکہ ان کے لئے نبی اکرمﷺ کا دلگیر ہونا اپنے غم وحزن سے زیادہ تکلیف دہ تھا اس لئے انھوں نے اس غم کی وجہ سے آواز سے رونا شروع کردیا۔3۔رسول اللہ ﷺ نے واضح فرمادیا کہ میرا مقصد یہ نہیں تھا۔ اس لئے ان خواتین کو واپس چلے جانے کا حکم دے دیا۔4۔میت کے گھر جمع ہوکر رونا پیٹنا اور نوحہ کرنا منع ہے۔بلکہ نوحہ کے بغیر بھی میت والوں کے گھر جمع ہونا منع ہے۔دیکھئے۔(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1612) جو شخص تعزیت کے لئے آئے تو وہ شخص تعزیت کرکے چلا جائے۔