Book - حدیث 1589

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ مَا جَاءَ فِي الْبُكَاءِ عَلَى الْمَيِّتِ حسن حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، عَنِ ابْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ، قَالَتْ: لَمَّا تُوُفِّيَ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِبْرَاهِيمُ بَكَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ الْمُعَزِّي: إِمَّا أَبُو بَكْرٍ، وَإِمَّا عُمَرُ: أَنْتَ أَحَقُّ مَنْ عَظَّمَ اللَّهُ حَقَّهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَدْمَعُ الْعَيْنُ، وَيَحْزَنُ الْقَلْبُ، وَلَا نَقُولُ مَا يُسْخِطُ الرَّبَّ، لَوْلَا أَنَّهُ وَعْدٌ صَادِقٌ، وَمَوْعُودٌ جَامِعٌ، وَأَنَّ الْآخِرَ تَابِعٌ لِلْأَوَّلِ، لَوَجَدْنَا عَلَيْكَ يَا إِبْرَاهِيمُ أَفْضَلَ مِمَّا وَجَدْنَا، وَإِنَّا بِكَ لَمَحْزُونُونَ»

ترجمہ Book - حدیث 1589

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب : میت پر رونے کا بیان اسماء بنت یزید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب اللہ کے رسول ﷺ کے فرزند ابراہیم ؓ کی وفات ہوئی تو رسول اللہ ﷺ روہ پڑے۔ تعزیت کرنے والے ایک صاحب ابو بکر، یا عمر ؓ نے کہا: آپ کی یہ شان ہے کہ آپ اللہ کے حق کی عظمت کا سب سے زیادہ خیال رکھنے والے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’آنکھوں سے آنسوبہتے ہیں، دل غمگین ہے، (لیکن) ہم وہ الفاظ نہیں کہیں گے جن سے اللہ ناراض ہو، اگر یہ بات نہ ہوتی کہ یہ (موت) ایک سچا وعدہ ہے( جس سے مفر نہیں) اور اس وعدہ کی چیز(موت) کی وجہ سے سب (عالم آخرت میں) اکھٹے ہونے والے ہیں اور بعد والا بھی پہلے والے کے پیچھے جانے والا ہے تو اے ابراہیم! ہمیں( اب) جتنا غم ہوا ہے اس سے کہیں زیادہ ہوتا اور ہم تیری وجہ سے یقینًا غمگین ہیں۔ ‘‘
تشریح : 1۔کسی عزیز یا دوست کی وفات پر رونا جائز ہے۔بشر ط یہ کہ جاہلیت کا انداز اختیار نہ کیاجائے۔2۔دوسرے افراد کو چاہیے کہ فوت ہونے والے کے اقارب کو مناسب انداز سے تسلی دیں۔جس سے ان کے غم میں تخفیف ہو۔3۔حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی مرضی یہی تھی۔اب اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیے یہ ادب کے دائرے میں رہ کر صبر کی تلقین ہے۔4۔اصل صبر یہ ہے کہ غم کے وقت بھی اپنی زبان اور ہاتھ وغیرہ کو ناجائز امور سے محفوظ رکھا جائے۔ایسے الفاظ نہ کہے جایئں جن سے اللہ پر ناراضی کا اظہار ہوتا ہو۔5۔اللہ کے رسول ﷺ نے وفات سے ہونے والے غم کے سلسلے میں ایک اہم اصولی حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے۔وہ یہ کہ موت کا وعدہ سچا ہے۔اس سے کسی کو مفر نہیں اگر فوت ہونے والا آج نہ جاتا تو کل چلا جاتا۔آخر جانا ہی تھا۔اور دوسری بات یہ کہ موت سے حاصل ہونے والی جدائی ایک عارضی جدائی ہے۔اگر ایک فرد ہم سے پہلے فوت ہوکر ہم سے جدا ہوگیا ہے تو پیچھے رہنے والے کو بھی فوت ہوکر وہیں پہنچنا ہے۔پھر یہ جدائی ختم ہوجائے گی اور اس کے بعد جدائی نہیں ہوگی۔اگر ان دو امو ر کی طرف توجہ کی جائے تو موت کا غم یقیناً ہلکا ہوجاتا ہے۔ 1۔کسی عزیز یا دوست کی وفات پر رونا جائز ہے۔بشر ط یہ کہ جاہلیت کا انداز اختیار نہ کیاجائے۔2۔دوسرے افراد کو چاہیے کہ فوت ہونے والے کے اقارب کو مناسب انداز سے تسلی دیں۔جس سے ان کے غم میں تخفیف ہو۔3۔حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی مرضی یہی تھی۔اب اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیے یہ ادب کے دائرے میں رہ کر صبر کی تلقین ہے۔4۔اصل صبر یہ ہے کہ غم کے وقت بھی اپنی زبان اور ہاتھ وغیرہ کو ناجائز امور سے محفوظ رکھا جائے۔ایسے الفاظ نہ کہے جایئں جن سے اللہ پر ناراضی کا اظہار ہوتا ہو۔5۔اللہ کے رسول ﷺ نے وفات سے ہونے والے غم کے سلسلے میں ایک اہم اصولی حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے۔وہ یہ کہ موت کا وعدہ سچا ہے۔اس سے کسی کو مفر نہیں اگر فوت ہونے والا آج نہ جاتا تو کل چلا جاتا۔آخر جانا ہی تھا۔اور دوسری بات یہ کہ موت سے حاصل ہونے والی جدائی ایک عارضی جدائی ہے۔اگر ایک فرد ہم سے پہلے فوت ہوکر ہم سے جدا ہوگیا ہے تو پیچھے رہنے والے کو بھی فوت ہوکر وہیں پہنچنا ہے۔پھر یہ جدائی ختم ہوجائے گی اور اس کے بعد جدائی نہیں ہوگی۔اگر ان دو امو ر کی طرف توجہ کی جائے تو موت کا غم یقیناً ہلکا ہوجاتا ہے۔