كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ مَا جَاءَ فِي الْبُكَاءِ عَلَى الْمَيِّتِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: كَانَ ابْنٌ لِبَعْضِ بَنَاتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْضِي، فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ أَنْ يَأْتِيَهَا، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا أَنَّ «لِلَّهِ مَا أَخَذَ، وَلَهُ مَا أَعْطَى، وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى، فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ» . فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ، فَأَقْسَمَتْ عَلَيْهِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقُمْتُ مَعَهُ، وَمَعَهُ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَعُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ، فَلَمَّا دَخَلْنَا نَاوَلُوا الصَّبِيَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرُوحُهُ تَقَلْقَلُ فِي صَدْرِهِ، قَالَ: حَسِبْتُهُ قَالَ: كَأَنَّهَا شَنَّةٌ، قَالَ: فَبَكَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ: مَا هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «الرَّحْمَةُ الَّتِي جَعَلَهَا اللَّهُ فِي بَنِي آدَمَ، وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ»
کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
باب : میت پر رونے کا بیان
اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی ایک صاحب زادی( زینب ؓا) کا ایک بیٹا( علی بن ابو العاص بن ربیع ؓ) حالت نزع میں تھا۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو پیغام بھیجا کہ تشریف لائیں۔ نبی ﷺ نے پیغام بھیجا کہ( زینب ؓا کو کہہ دیں:) ’’اللہ ہی کاہے جو وہ لے لے اور اسی کا ہے جو وہ دے دے اور اس کے پاس ہر چیز کی ایک مدت مقرر ہے، اس لیے (زینب کو چاہیے کہ) وہ صبر کریں۔ اور اللہ سے ثواب کی امید رکھیں ۔‘‘ انہوں نے قسم دی( کہ نبی ﷺ ضرور تشریف لائیں۔ ) چنانچہ رسول اللہ ﷺ اٹھ کھڑے ہوئے آپ کے ساتھ میں بھی تھا اور معاذ بن جبل، ابی کعب اور عبادہ بن صامت (ؓم) بھی روانہ ہوئے، جب ہم ان کے ہاں پہنچے تو بچے کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچایا گیا جب کہ بچے کی جان اس کے سینے میں تھی( سانس اکھڑ چکا تھا معلوم ہوتا تھا آخری وقت ہے) راوی نے غالباً یہ بھی کہا: یوں لگتا تھا کہ جیسے پرانی مشک ہے( جس طرح اس میں پانی حرکت کرتا ہے۔ اس طرح سانس مشکل سے آرہا تھا) رسول اللہ ﷺ اشک بار ہوگئے ، عبادہ بن صامت ؓ نے( تعجب سے) کہا: اللہ کے رسول! یہ کیا؟ ‘‘رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ وہ رحمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی آدم میں رکھی ہے اور اللہ بھی اپنے ان بندوں پر رحم کرتا ہے جو( دوسروں پر ) رحم کرنے والے ہوتے ہیں۔ ‘‘
تشریح :
1۔مصیبت کے وقت صبر اسلام کی اہم تعلیمات میں سے ہے۔2۔انسان کو مصیبت کے وقت یہ سوچنا چاہیے۔کہ جو کچھ اللہ نے ہم سے لیا ہے۔وہ ہمارا نہیں تھا بلکہ اللہ ہی کا تھا لہذا ہم نے اللہ کی امانت واپس کی ہے۔3۔یہ اللہ کا احسان ہے کہ وہ اپنی امانت ایک مدت تک ہمارے پاس رہنے دیتا ہے۔ اور ہم اس سے فائدہ اُٹھاتے اور دل خوش کرتے ہیں۔اور جب وہ اپنی امانت واپس لیتا ہے۔تو پھر صبر کرنے پر بھی ہمیں اجر وثواب عطا فرماتا ہے۔یہ بھی اس کا ایک احسان ہے۔4۔دل کا غم اور آنکھوں سے آنسو بہنا صبر کے منافی نہیں۔5۔کسی کو قسم دے کر کوئی مطالبہ کرنا جائز ہے۔6۔جس کام کے لئے قسم دی جائے اگر وہ شرعا ممنوع نہ ہو تو اسے پورا کرنا ایک مسلمان کادوسرے مسلمان پر حق ہے۔7۔غم کا موقع ہو یا خوشی کا اگر مسئلہ پوچھا جائے تو وضاحت کردینی چاہیے۔8۔اپنا یا کسی کی مصیبت پر غمگین ہونا نرم دلی کی علامت ہے۔جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔9۔اللہ کی مخلوق پر رحمت وشفقت کرنے سے بندے کواللہ کی رحمت حاصل ہوتی ہے۔10۔وفات کے وقت تمام رشتے داروں کا حاض ہونا ضروری نہیں تاہم گھر والوں کی یہ خواہش جائز ہے کہ ایسے وقت میں نیک لوگ قریب ہوں تاکہ ان کی دعا اور برکت سے جان کنی کا مرحلہ آسانی سے طے ہوجائے۔
1۔مصیبت کے وقت صبر اسلام کی اہم تعلیمات میں سے ہے۔2۔انسان کو مصیبت کے وقت یہ سوچنا چاہیے۔کہ جو کچھ اللہ نے ہم سے لیا ہے۔وہ ہمارا نہیں تھا بلکہ اللہ ہی کا تھا لہذا ہم نے اللہ کی امانت واپس کی ہے۔3۔یہ اللہ کا احسان ہے کہ وہ اپنی امانت ایک مدت تک ہمارے پاس رہنے دیتا ہے۔ اور ہم اس سے فائدہ اُٹھاتے اور دل خوش کرتے ہیں۔اور جب وہ اپنی امانت واپس لیتا ہے۔تو پھر صبر کرنے پر بھی ہمیں اجر وثواب عطا فرماتا ہے۔یہ بھی اس کا ایک احسان ہے۔4۔دل کا غم اور آنکھوں سے آنسو بہنا صبر کے منافی نہیں۔5۔کسی کو قسم دے کر کوئی مطالبہ کرنا جائز ہے۔6۔جس کام کے لئے قسم دی جائے اگر وہ شرعا ممنوع نہ ہو تو اسے پورا کرنا ایک مسلمان کادوسرے مسلمان پر حق ہے۔7۔غم کا موقع ہو یا خوشی کا اگر مسئلہ پوچھا جائے تو وضاحت کردینی چاہیے۔8۔اپنا یا کسی کی مصیبت پر غمگین ہونا نرم دلی کی علامت ہے۔جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔9۔اللہ کی مخلوق پر رحمت وشفقت کرنے سے بندے کواللہ کی رحمت حاصل ہوتی ہے۔10۔وفات کے وقت تمام رشتے داروں کا حاض ہونا ضروری نہیں تاہم گھر والوں کی یہ خواہش جائز ہے کہ ایسے وقت میں نیک لوگ قریب ہوں تاکہ ان کی دعا اور برکت سے جان کنی کا مرحلہ آسانی سے طے ہوجائے۔