Book - حدیث 1577

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ مَا جَاءَ فِي اتِّبَاعِ النِّسَاءِ الْجَنَائِزَ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: «نُهِينَا عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ، وَلَمْ يُعْزَمْ عَلَيْنَا»

ترجمہ Book - حدیث 1577

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب : عورتوں کا جنازے کے ساتھ جانے کا بیان ام عطیہ ؓا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: ہمیں جنازوں کے ساتھ جانے سمنع کیا گیا ہے لیکن پختہ حکم نہیں دیا گیا۔
تشریح : پختہ حکم کامطلب حرمت کی صراحت ہے۔یعنی اللہ کے رسول ﷺ نے منع تو فرمایا لیکن زیادہ سختی سے نہیں۔گویا حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کے مطابق جنازے کے ساتھ عورتوں کاجانا حرام نہیں مکروہ ہے۔اور مکروہ سے اجتناب ہی افضل ہوتا ہے۔نماز جنازہ میں عورتوں کا شیک ہونا جائز ہے۔صحیح مسلم میں ہے کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیوفات ہوئی۔تو نبی اکرمﷺ کی اذواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پیغام بھیجا کہ جنازہ مسجد میں لایاجائے۔تاکہ وہ بھی نماز جنازہ میں شریک ہوسکیں۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔جنازہ امہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حجروں کے پاس رکھا گیا تا کہ وہ جنازہ پڑھ لیں۔پھر اسے مقاعد کی طرف باب الجنائز سے (نکال کر قبرستان میں ) لے جایا گیا۔(بعد میں) انھیں معلوم ہوا کہ کچھ لوگوں ن اس عمل پر تنقید کی ہے۔اور کہا کہ (رسول اللہﷺ کے زمانہ مبارک میں) جنازہ مسجد میں نہیں لے جایا جاتا تھا۔حضرت عائشہ کو یہ بات معلوم ہوتی تو فرمایا لوگوں کو جس بات کا علم نہیں ہوتا اس پر کتنی جلدی تنقید کرنے لگتے ہیں۔ہم پر یہ تنقید کرتے ہیں کہ جنازہ مسجد میں لے جایاگیا۔حالانکہ رسول اللہﷺ نے سہیل بن بیضاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاجنازہ مسجد ہی کے اندر ادا کیا تھا۔ (صحیح مسلم الجنائز باب الصلاۃ علی الجنازۃ فی المسجد حدیث 973) پختہ حکم کامطلب حرمت کی صراحت ہے۔یعنی اللہ کے رسول ﷺ نے منع تو فرمایا لیکن زیادہ سختی سے نہیں۔گویا حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کے مطابق جنازے کے ساتھ عورتوں کاجانا حرام نہیں مکروہ ہے۔اور مکروہ سے اجتناب ہی افضل ہوتا ہے۔نماز جنازہ میں عورتوں کا شیک ہونا جائز ہے۔صحیح مسلم میں ہے کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیوفات ہوئی۔تو نبی اکرمﷺ کی اذواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پیغام بھیجا کہ جنازہ مسجد میں لایاجائے۔تاکہ وہ بھی نماز جنازہ میں شریک ہوسکیں۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔جنازہ امہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حجروں کے پاس رکھا گیا تا کہ وہ جنازہ پڑھ لیں۔پھر اسے مقاعد کی طرف باب الجنائز سے (نکال کر قبرستان میں ) لے جایا گیا۔(بعد میں) انھیں معلوم ہوا کہ کچھ لوگوں ن اس عمل پر تنقید کی ہے۔اور کہا کہ (رسول اللہﷺ کے زمانہ مبارک میں) جنازہ مسجد میں نہیں لے جایا جاتا تھا۔حضرت عائشہ کو یہ بات معلوم ہوتی تو فرمایا لوگوں کو جس بات کا علم نہیں ہوتا اس پر کتنی جلدی تنقید کرنے لگتے ہیں۔ہم پر یہ تنقید کرتے ہیں کہ جنازہ مسجد میں لے جایاگیا۔حالانکہ رسول اللہﷺ نے سہیل بن بیضاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاجنازہ مسجد ہی کے اندر ادا کیا تھا۔ (صحیح مسلم الجنائز باب الصلاۃ علی الجنازۃ فی المسجد حدیث 973)