Book - حدیث 1567

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنِ الْمَشْيِ عَلَى الْقُبُورِ، وَالْجُلُوسِ عَلَيْهَا صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْيَزَنِيِّ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَأَنْ أَمْشِيَ عَلَى جَمْرَةٍ، أَوْ سَيْفٍ، أَوْ أَخْصِفَ نَعْلِي بِرِجْلِي، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَمْشِيَ عَلَى قَبْرِ مُسْلِمٍ، وَمَا أُبَالِي أَوَسْطَ الْقُبُورِ قَضَيْتُ حَاجَتِي، أَوْ وَسْطَ السُّوقِ»

ترجمہ Book - حدیث 1567

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب : قبروں پر چلنے اور ان پر بیٹھنے کی ممانعت کا بیان عقبہ بن عامر جہنی ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کس مسلمان کی قبر پر چلنے کے مقابلے میں مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں انگارے پر یا تلوار پر چلوں یا اپنا جوتا اپنی ٹانگ سے سی لوں، ( اسی طرح) سر بازار قضائے حاجت کرنا اور قبروں کے درمیان قضائے حاجت کرنا میرے نزدیک برابر ہے۔‘‘
تشریح : 1۔ہمارے فاضل محقق نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔اور مذید لکھا ہے کہ اس کے شواہد ہیں۔اور یہی روایت مصنف ابن ابی شیبہ (3/338/339)میں حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوفاً مروی ہے۔لیکن حکماً مرفوع ہے۔جب کہ دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو صحیح قراردیا ہے۔تفصیل کےلئے دیکھئے۔(الارواء للبانی رقم 63 وسنن ابن ماجہ للدکتور بشار عواد حدیث 1567)الحاصل مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔2۔قبروں میں قضائے حاجت کرنا بہت بُری حرکت ہے۔3۔بعض علماء نے قبر پر بیٹھنے سے بھی یہی مُراد لیا ہے بعض نے قبر پر چڑھ کر بیٹھنا مُراد لیا ہے۔جس طرح ہم کسی اونچی جگہ بیٹھ جاتے ہیں۔کیونکہ اس سے میت کی اہانت ہوتی ہے۔4۔جس طرح آگ پریا تلوار پر چلنا کوئی پسند نہیں کرتا۔اسی طرح مسلمان کی قبر پر پائوں رکھنے سے انتہائی پرہیز کرنا چاہیے افسوس کی بات ہے کہ آجکل مسلمان اس چیز کی بالکل پروا نہیں کرتےاور قبروں پر سے راستہ بنا لیتے ہیں۔5۔قبروں پر بیٹھنے کا ایک مطلب مجاور بن کر بیٹھنا بھی بیان کیا گیا ہے۔یہ کام بھی دوسرے دلائل کی روشنی میں ممنوع ہے۔6۔حدیث کے آخری جملے کا لفظی ترجمہ یہ ہے۔ مجھے پرواہ نہیں کہ قبروں کے درمیان قضا ئےحاجت کروں یا بازار میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اگ مجھے مجبور کیا جائے کہ میں ان دو بُرے کاموں سے ایک ضرور کام کروں۔تو میری نظر میں یہ دونوں کام برابر ہوں گے۔یا یوں کہا جاسکتا ہے۔کہ اگر کوئی قبرستان میں قضائے حاجت کرنے سے شرم نہیں کرتا تو اسے سر بازار قضائے حاجت کرنے سے بھی شرم نہیں کرنی چاہیے۔اگر وہ بازار میں سب کےسامنے ننگا ہوکر نہیں بیٹھ سکتاتو قبروں میں بھی اسے اتنی ہی شرم کرنا ضروری ہے۔ 1۔ہمارے فاضل محقق نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔اور مذید لکھا ہے کہ اس کے شواہد ہیں۔اور یہی روایت مصنف ابن ابی شیبہ (3/338/339)میں حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوفاً مروی ہے۔لیکن حکماً مرفوع ہے۔جب کہ دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو صحیح قراردیا ہے۔تفصیل کےلئے دیکھئے۔(الارواء للبانی رقم 63 وسنن ابن ماجہ للدکتور بشار عواد حدیث 1567)الحاصل مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔2۔قبروں میں قضائے حاجت کرنا بہت بُری حرکت ہے۔3۔بعض علماء نے قبر پر بیٹھنے سے بھی یہی مُراد لیا ہے بعض نے قبر پر چڑھ کر بیٹھنا مُراد لیا ہے۔جس طرح ہم کسی اونچی جگہ بیٹھ جاتے ہیں۔کیونکہ اس سے میت کی اہانت ہوتی ہے۔4۔جس طرح آگ پریا تلوار پر چلنا کوئی پسند نہیں کرتا۔اسی طرح مسلمان کی قبر پر پائوں رکھنے سے انتہائی پرہیز کرنا چاہیے افسوس کی بات ہے کہ آجکل مسلمان اس چیز کی بالکل پروا نہیں کرتےاور قبروں پر سے راستہ بنا لیتے ہیں۔5۔قبروں پر بیٹھنے کا ایک مطلب مجاور بن کر بیٹھنا بھی بیان کیا گیا ہے۔یہ کام بھی دوسرے دلائل کی روشنی میں ممنوع ہے۔6۔حدیث کے آخری جملے کا لفظی ترجمہ یہ ہے۔ مجھے پرواہ نہیں کہ قبروں کے درمیان قضا ئےحاجت کروں یا بازار میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اگ مجھے مجبور کیا جائے کہ میں ان دو بُرے کاموں سے ایک ضرور کام کروں۔تو میری نظر میں یہ دونوں کام برابر ہوں گے۔یا یوں کہا جاسکتا ہے۔کہ اگر کوئی قبرستان میں قضائے حاجت کرنے سے شرم نہیں کرتا تو اسے سر بازار قضائے حاجت کرنے سے بھی شرم نہیں کرنی چاہیے۔اگر وہ بازار میں سب کےسامنے ننگا ہوکر نہیں بیٹھ سکتاتو قبروں میں بھی اسے اتنی ہی شرم کرنا ضروری ہے۔