Book - حدیث 1558

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ مَا جَاءَ فِي الشَّقِّ حسن حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ شَبَّةَ بْنِ عُبَيْدَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ طُفَيْلٍ الْمُقْرِئُ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ الْقُرَشِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْتَلَفُوا فِي اللَّحْدِ وَالشَّقِّ، حَتَّى تَكَلَّمُوا فِي ذَلِكَ، وَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمْ، فَقَالَ عُمَرُ: لَا تَصْخَبُوا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيًّا وَلَا مَيِّتًا، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، فَأَرْسَلُوا إِلَى الشَّقَّاقِ، وَاللَّاحِدِ جَمِيعًا، فَجَاءَ اللَّاحِدُ، «فَلَحَدَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ دُفِنَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»

ترجمہ Book - حدیث 1558

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب : صندوقی ( شق والی) قبر کا بیان عائشہ ؓا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ کا انتقال ہوا تو صحابہ ؓم میں بغلی (لحد والی) یا سیدھی (شق والی) قبر کے بارے میں اختلاف ہوگیا۔ انہوں نے اس بارے میں بحث کی حتی کہ ان کی آوازیں بلند ہوگئیں۔ عمر ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے پاس زور سے نہ بولو، خواہ آپ زندہ ہوں یا فوت ہو چکے ہوں، یا ایسے ہی دیگر الفاظ فرمائے، چنانچہ انہوں نے سیدھی( شق والی) قبر بنانے والے اور بغلی( لحد والی) قبر بنانے والے دونوں کو بلا بھیجا۔ بغلی( لحد والی ) قبر بنانے والا( پہلے ) آگیا۔ اس نے رسول اللہ ﷺ کے لیے بغلی (لحد والی) قبر تیار کی، پھر رسول اللہ ﷺ کو دفن کر دیا گیا۔
تشریح : 1۔صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کےبحث ومباحثہ سے معلوم ہوتا ہے۔کہ ان کی نظر میں دونوں طریقے درست تھے۔ قابل غور مسئلہ صرف یہ تھا کہ نبی کریم ﷺ کی قبر مبارک کےلئے کون سا طریقہ اختیار کیا جائے۔2۔جب کسی معاملے میں دونوں پہلوں قریب قریب برابر ہوں۔تو ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔جس پر فریقین رضا مند ہوجایئں۔ اور اختلاف ختم ہوجائے۔3۔رسول اللہ ﷺ کے احترام کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے پاس زور سے نہ بولا جائے۔یہ احترام وفات کے بعد بھی قائم ہے۔لہذا قبرمبارک کے قریب بلند آواز سے بات چیت یا بحث وتکرار سے اجتناب کرنا چاہیے۔4۔رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبریں مسجد نبوی ﷺسے باہر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی رہائش گاہ میں بنایئں گئیں تھیں۔بعد میں جب مسجد نبویﷺ کی توسیع ہوئی تو امہات المومنین کے حجرے بھی مسجد میں شامل ہوگئے۔اب مسجد کے احترام کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہاں بلند آوازسے بات چیت نہ کی جائے۔لہذا قبر نبوی(ﷺ ) کی زیارت کرنے والوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہاں بلند آواز سے صلاۃ وسلام نہ پڑھیں بلکہ زیارت قبور کی مسنون دعایئں ہلکی آواز سے پڑھیں۔ 1۔صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کےبحث ومباحثہ سے معلوم ہوتا ہے۔کہ ان کی نظر میں دونوں طریقے درست تھے۔ قابل غور مسئلہ صرف یہ تھا کہ نبی کریم ﷺ کی قبر مبارک کےلئے کون سا طریقہ اختیار کیا جائے۔2۔جب کسی معاملے میں دونوں پہلوں قریب قریب برابر ہوں۔تو ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔جس پر فریقین رضا مند ہوجایئں۔ اور اختلاف ختم ہوجائے۔3۔رسول اللہ ﷺ کے احترام کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے پاس زور سے نہ بولا جائے۔یہ احترام وفات کے بعد بھی قائم ہے۔لہذا قبرمبارک کے قریب بلند آواز سے بات چیت یا بحث وتکرار سے اجتناب کرنا چاہیے۔4۔رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبریں مسجد نبوی ﷺسے باہر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی رہائش گاہ میں بنایئں گئیں تھیں۔بعد میں جب مسجد نبویﷺ کی توسیع ہوئی تو امہات المومنین کے حجرے بھی مسجد میں شامل ہوگئے۔اب مسجد کے احترام کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہاں بلند آوازسے بات چیت نہ کی جائے۔لہذا قبر نبوی(ﷺ ) کی زیارت کرنے والوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہاں بلند آواز سے صلاۃ وسلام نہ پڑھیں بلکہ زیارت قبور کی مسنون دعایئں ہلکی آواز سے پڑھیں۔