Book - حدیث 1546

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ مَا جَاءَ فِيمَا يُقَالُ إِذَا دَخَلَ الْمَقَابِرَ ضعیف هو صحيح دون: " اللهم لا حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: فَقَدْتُهُ، تَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا هُوَ بِالْبَقِيعِ، فَقَالَ: «السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، أَنْتُمْ لَنَا فَرَطٌ، وَإِنَّا بِكُمْ لَاحِقُونَ، اللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُمْ، وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَهُمْ»

ترجمہ Book - حدیث 1546

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب : قبرستان میں جا کر کیا کہے؟ عائشہ ؓا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: ایک رات نبی ﷺ مجھے( بستر پر) نظر نہ آئے۔ دیکھا تو آپ بقیع(قبرستان) میں تھے۔ (وہاں) آپ نے فرمایا: ( السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ أَنْتُمْ لَنَا فَرَطٌ وَإِنَّا بِكُمْ لاَحِقُونَ اللَّهُمَّ لاَ تَحْرِمْنَا أَجْرَهُمْ وَلاَ تَفْتِنَّا بَعْدَهُمْ ) ’’اے مومن لوگوں کی بستی والو! تم پر سلامتی ہو تم ہمارے پیش رو ہو اور ہم بھی تم سے آملنے والے ہیں۔ اے اللہ! ہمیں ان( پر صبر) کے ثواب سے محروم نہ رکھنا اور ان ( کی وفات) کے بعد ہمیں آزمائش میں مبتلا نہ کرنا۔‘‘
تشریح : 1۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ اور مزید لکھا ہے کہ اس روایت سے آئندہ آنے والی روایت کفایت کرتی ہے۔غالباً اسی وجہ سے دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔الحاصل مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے۔لیکن دیگر روایات کی وجہ سے معناًصحیح ہے۔تفصیل کےلئے دیکھئے۔(الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الامام احمد 40/486۔487) وصحیح ابن ماجہ رقم 1266)2۔قبروں کی زیارت مسنون ہے۔ تاکہ موت یاد آئے اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوکر آخرت کی طرف توجہ ہوجائے۔3۔قبروں کی زیارت جس طرح دن کے وقت کی جاسکتی ہے۔رات کو بھی جائز ہے۔4۔قبروں کی زیارت کا مقصد فوت ہونے والوں کےلئے دعا ہے۔فوتشدگان سے کچھ مانگنا جائز نہیں۔کیونکہ وہ لوگ نہ ہماری باتیں سنتےہیں۔نہ ہماری درخواست قبول کرسکتے ہیں۔5۔السلام و علیکم کہنے سے انھیں سنانا مقصود نہیں بلکہ ان کے لئے دعا اور ان کے حال سے عبرت حاصل کرنا مقصود ہے۔ کہ جس طرح یہ لوگ کل ہمارے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے۔آج قبروں میں پڑے ہیں۔ہم پر بھی عنقریب وہ وقت آنے والا ہے۔جب ہم اسی طرح دفن ہوجایئں گے اور دوسروں کی دعائوں کے محتاج ہوں گے۔6۔دعا کا آخری جملہ نماز جنازہ کی دعائوں میں شامل ہے وہاں پڑھنا درست ہے۔دیکھئے۔(سنن ابن ماجہ حدیث 1498) 1۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ اور مزید لکھا ہے کہ اس روایت سے آئندہ آنے والی روایت کفایت کرتی ہے۔غالباً اسی وجہ سے دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔الحاصل مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے۔لیکن دیگر روایات کی وجہ سے معناًصحیح ہے۔تفصیل کےلئے دیکھئے۔(الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الامام احمد 40/486۔487) وصحیح ابن ماجہ رقم 1266)2۔قبروں کی زیارت مسنون ہے۔ تاکہ موت یاد آئے اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوکر آخرت کی طرف توجہ ہوجائے۔3۔قبروں کی زیارت جس طرح دن کے وقت کی جاسکتی ہے۔رات کو بھی جائز ہے۔4۔قبروں کی زیارت کا مقصد فوت ہونے والوں کےلئے دعا ہے۔فوتشدگان سے کچھ مانگنا جائز نہیں۔کیونکہ وہ لوگ نہ ہماری باتیں سنتےہیں۔نہ ہماری درخواست قبول کرسکتے ہیں۔5۔السلام و علیکم کہنے سے انھیں سنانا مقصود نہیں بلکہ ان کے لئے دعا اور ان کے حال سے عبرت حاصل کرنا مقصود ہے۔ کہ جس طرح یہ لوگ کل ہمارے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے۔آج قبروں میں پڑے ہیں۔ہم پر بھی عنقریب وہ وقت آنے والا ہے۔جب ہم اسی طرح دفن ہوجایئں گے اور دوسروں کی دعائوں کے محتاج ہوں گے۔6۔دعا کا آخری جملہ نماز جنازہ کی دعائوں میں شامل ہے وہاں پڑھنا درست ہے۔دیکھئے۔(سنن ابن ماجہ حدیث 1498)