Book - حدیث 1545

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ مَا جَاءَ فِي الْقِيَامِ لِلْجِنَازَةِ حسن حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَعُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ رَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اتَّبَعَ جِنَازَةً لَمْ يَقْعُدْ حَتَّى تُوضَعَ فِي اللَّحْدِ» فَعَرَضَ لَهُ حَبْرٌ، فَقَالَ: هَكَذَا نَصْنَعُ يَا مُحَمَّدُ فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: «خَالِفُوهُمْ»

ترجمہ Book - حدیث 1545

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب : جنازہ آتا دیکھ کر کھڑے ہونا عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب کسی جنازے کے ساتھ جاتے تو میت کو قبر میں رکھے جانے تک نہ بیٹھتے (ایک بار) نبی ﷺ کو ایک یہودی عالم ملا، اس نے کہا: اے محمد(ﷺ)! ہم بھی اسی طرح کرتے ہیں۔ تب رسول اللہ ﷺ بیٹھنے لگے اور فرمایا: ’’ان کی مخالفت کرو۔‘‘
تشریح : 1۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ میت کی تدفین تک کھڑے رہنا منسوخ ہے۔بلکہ جب میت کی چار پائی زمین پر رکھ دی جائے۔تو ساتھ آنے والے بیٹھ سکتے ہیں۔2۔غیرمسلموں سے امتیاز قائم کرنا اسلام کا ایک اہم اصول ہے۔شریعت میں اس اُصول کا لہاظ عبادات میں بھی رکھا گیا ہے۔اور دوسرے روز مرہ معاملات میں بھی لہذا عیسایئوں کا بڑا دن نیا سال(یکم جنوری کو خوشی منانا)اور ہندووں کی بسنت ہولی اور دیوالی۔شادی غمی کی رسمیں مثلا غم کے موقع پر سیاہ لباس پہننا یا بیوہ کی دوسری شادی کو معیوب سمجھنا یا شادی کے موقع پر دولیا کا دلہن کی رشتہ دار عورتوں سے بلا تکلف ملنا اور آپس میں ہنسی مذاق کرنا۔اور اسی طرح کے دیگر معاملات اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہونے کی وجہ سے اور غیر مسلموں کے رواج ہونے کی وجہ حرام ہیں جن سے پرہیز انتہائی ضروری ہے۔3۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ یہی روایت سنن ابی دائود۔(حدیث 3176) میں بھی مروی ہے۔وہاں پر بھی ہمارے شیخ نے اس کو سنداًضعیف قرار دیا ہے۔لیکن مذید لکھا ہے کہ صحیح مسلم کی روایت (962)اس سے کفایت کرتی ہے۔لہذا مسئلہ اسی طرح ہے کہ بعض محققین کے نزدیک میت کودیکھ کر کھڑا ہونا منسوخ ہے۔اور بعض کے نزدیک کھڑا ہونا مستحب ہے۔صرف وجوب مسنوخ ہے واللہ اعلم۔ 1۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ میت کی تدفین تک کھڑے رہنا منسوخ ہے۔بلکہ جب میت کی چار پائی زمین پر رکھ دی جائے۔تو ساتھ آنے والے بیٹھ سکتے ہیں۔2۔غیرمسلموں سے امتیاز قائم کرنا اسلام کا ایک اہم اصول ہے۔شریعت میں اس اُصول کا لہاظ عبادات میں بھی رکھا گیا ہے۔اور دوسرے روز مرہ معاملات میں بھی لہذا عیسایئوں کا بڑا دن نیا سال(یکم جنوری کو خوشی منانا)اور ہندووں کی بسنت ہولی اور دیوالی۔شادی غمی کی رسمیں مثلا غم کے موقع پر سیاہ لباس پہننا یا بیوہ کی دوسری شادی کو معیوب سمجھنا یا شادی کے موقع پر دولیا کا دلہن کی رشتہ دار عورتوں سے بلا تکلف ملنا اور آپس میں ہنسی مذاق کرنا۔اور اسی طرح کے دیگر معاملات اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہونے کی وجہ سے اور غیر مسلموں کے رواج ہونے کی وجہ حرام ہیں جن سے پرہیز انتہائی ضروری ہے۔3۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ یہی روایت سنن ابی دائود۔(حدیث 3176) میں بھی مروی ہے۔وہاں پر بھی ہمارے شیخ نے اس کو سنداًضعیف قرار دیا ہے۔لیکن مذید لکھا ہے کہ صحیح مسلم کی روایت (962)اس سے کفایت کرتی ہے۔لہذا مسئلہ اسی طرح ہے کہ بعض محققین کے نزدیک میت کودیکھ کر کھڑا ہونا منسوخ ہے۔اور بعض کے نزدیک کھڑا ہونا مستحب ہے۔صرف وجوب مسنوخ ہے واللہ اعلم۔